ایران اسرائیل سٹریٹیجک وار گیم
اگر ایرانی رجیم نے مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال کو سمجھنے میں مزید دیر کر دی اور اپنی سٹریٹیجک پالیسیز پر نظرثانی نہ کی تو اسے امریکی رہنمائی میں اسرائیل کے مزید شدید ترین حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان زمینی فاصلہ لگ بھگ دو ہزار کلومیٹر کا ہے اور اسرائیل کو ایران کی طرف سے میزائل اور ڈرونز حملوں کے سوا کسی قسم کے بری اور زمینی حملے کا خطرہ نہیں ہے جبکہ ایرانی میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی حملوں کی صلاحیت اور استعداد کو اسرائیل اپنے 13جون 2025ء کے الصبح کے حملوں میں مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکا تو کم از کم کافی حد تک ناکارہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ اسرائیل کے موجودہ کامیاب حملوں کا تجزیہ اگر 2024ء میں ایران میں موجود حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی روشنی میں کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل نے ایران پر تازہ حملہ کتنی عرق ریزی سے کی گئی منصوبہ بندی کے بعد کیا جس میں ایران کو بھاری سویلئین اور فوجی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے برعکس عالمی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جب ایران نے جوابی حملے میں 100 سے زائد ڈرونز اور میزائل داغے لیکن اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے انہیں بڑی حد تک راستے ہی میں ناکام بنا دیا۔
اسرائیل نے حملہ کی ابتدا میں ہی ایران کی ٹاپ فوجی قیادت ختم کر دی جس میں ایئر چیف تک شہید ہو گئے۔ اس کے باوجود ایران پر اسرائیلی حملے تادم تحریر جاری ہیں۔ وقفے وقفے سے اسرائیلی طیارے ایران کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسرائیل کی معلومات اس قدر مکمل ہیں کہ زمین سے زمین تک مار کرنے والے لانچنگ میزائل پیڈ بھی سو فیصد درستگی کے ساتھ نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ایران کے پاس مہلک خود کش ڈرون تھے۔ اسرائیلی پر حملہ کیلئے 100 ڈرون بھیجے گئے جن میں سے 97 فیصد اردن ،شام اور عراق وغیرہ میں گرا لئے گئے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی جیٹ طیارے ایران کے 60 فیصد ہوائی اڈے تباہ کر چکے ہیں۔ ایک روز قبل روسی اور چینی نیوز چینلز کے مطابق مہرآباد اور بوشہر کے ائیرپورٹ تباہ کئے گئے۔ تبریز میں بلاسٹک میزائل کے تمام لانچنگ پیڈ تباہ کر دیئے گئے ہیں۔
ایرانی ایئر ڈیفنس کا نظام مفلوج ہے جہاں سے ڈرون اڑے تھے۔ ایران کی سب سے بڑی آئل ریفائنری آبادان بھی صبح گیارہ بجے تباہ کر دی گئی۔
پوری دنیا ایران کے ردعمل کی منتظر تو ہے لیکن یہ ردعمل بہت کم شدت کا ہو گا۔ اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے کے لیئے درکار تمام سہولتیں اردن ،شام اور عراق میں مل رہی ہیں جبکہ ایران کے آئیندہ کسی جوابی ڈرون حملے کو بھی انہی ملکوں نے ناکام بنا دینا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ایران کو اپنی آنکھ کھولنی چایئے۔ اسرائیلی جیٹ شام کی فضاؤں میں ری فیولنگ حاصل کرتے رہے۔ جبکہ عراق اور اردن میں انہیں یہی سہولتیں زمین پر میسر ہیں۔
مزید برآں ایرانی فضائیہ کے پاس 30 سال پرانے روسی طیارے یا عراق پر امریکی حملہ کے موقع پر آنے والے عراقی لڑاکا جیٹ ہیں اور ایران کے بیشتر ائر پورٹس بھی تباہ ہو چکے ہیں اور ایرانی لڑاکا طیارے فضاؤں میں اسرائیلی طیاروں کو چیلینج کرنے سے قاصر ہیں۔ ایران بلاسٹک میزائلوں سے حملہ کر سکتا ہے۔ لیکن بیشتر لانچنگ پیڈ تباہ ہونے سے جوابی حملہ ڈرون حملہ کی طرح ناکام ہونے کا امکان ہے۔
آخر ایران اسرائیل کے لیئے نوالہ تر کیوں ثابت ہوا یا ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب ایران کی وہ غیردانشمندانہ سٹریٹیجک وار ہے جو اس نے گزشتہ نصف صدی سے اپنے برادر مسلم ممالک کے خلاف جاری کر رکھی ہے۔ ایک طرف ایران پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ نرم کوشہ رکھتا ہے، دوسری طرف یمن میں وہ سعودی عرب کے خلاف ایرانی حوثیوں کو مدد فراہم کرتا ہے اور تیسری طرف وہ پاک بھارت جنگ میں خفیہ طور پر بھارت کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔
اسرائیل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ایران پر حملہ ایران کے اندر سے کیا۔ اسرائیل نے ساری منصوبہ بندی اور یہاں تک کہ جو میزائل داغے، وہ بھی ایران کے اندر سے داغے۔ اسرائیل یہ منصوبہ بندی کئی سالوں سے کر رہا تھا، سینکڑوں افراد ایران کے اندر موجود تھے جو بنیادی طور پر موساد کے ایجنٹ تھے، ایرانی دفاعی تنصیبات کی اطلاع بھی ان ایجنٹوں کے ذریعے اسرائیل کو پہنچتی رہی یعنی مطلب یہ کہ ایران کے اندر صیہونی فوج تیار ہو رہی تھی مگر ایران "پراکسی وار” اور "مسلکی و مذہبی جنگ” میں اپنے ہم خیال گروپ تیار کرنے میں مصروف تھا۔
اس کے باوجود پاکستان سمیت خلیجی ریاستوں نے اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایران کو ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ اس نے "معاہدہ” نہ کیا تو اسے صفحہ ہستی سے مٹنا پڑے گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ستمبر میں لبنان میں حزب اللہ کے ذمہ داروں کے ہاتھوں میں اور بیگوں میں ہی ان کے اپنے پیجرز اور واکی ٹاکی پھٹ گئے تھے۔ دو بار ہونے والی ان کارروائیوں میں ایرانی سفیر سمیت 32 لوگ مارے گئے تھے اور 28 سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ ایران اسرائیل کے ہاتھوں جاری اس ہزیمت سے اب بھی ہمسایہ برادر ممالک کے بارے اپنی سٹریٹیجک پالیسی تبدیل نہیں کرتا تو اسے اسرائیل کے خلاف یہ جنگ اکیلے لڑنا ہو گی جس میں کامیابی کے امکانات زیرو پرسنٹ سے بھی کم نظر آ رہے ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |