حمیرا جمیل کی کتاب "اقبال سیالکوٹ میں”: تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
شہر اقبال سیالکوٹ کا نام برصغیر کی ادبی، فکری اور تہذیبی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ شہر صدیوں سے اہلِ دانش، صوفیا اور اہلِ قلم کا مرکز رہا ہے۔ برصغیر کی روحانی روایت اور فکری تسلسل کو آگے بڑھانے والے بڑے ناموں میں علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا نام سرِفہرست ہے، جنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیم کا بیشتر حصہ اسی شہر میں گزارا۔ سیالکوٹ کو نہ صرف شاعرِ مشرق کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ یہاں کی فضا اور تہذیب نے اقبال کی شخصیت کے فکری خدوخال میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔
یہی پس منظر حمیرا جمیل کی کتاب "اقبال سیالکوٹ میں” کا مرکزی حوالہ ہے۔ یہ کتاب اس سلسلے کا دوسرا حصہ ہے، جس کا آغاز انہوں نے "اقبال لاہور میں” سے کیا تھا۔ اس میں انہوں نے علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی، سیالکوٹ کے ساتھ ان کے قلبی و روحانی تعلق اور اس شہر میں اقبال شناسی کی روایت کو مختلف ابواب میں سمو کر پیش کیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں گفتنی کے عنوان سے حمیرا جمیل لکھتی ہیں کہ:
’’ اس وقت جس موضوع پر میں نے لکھنے کی جسارت کی ہے اسے اقبال جیسی ہمہ گیر اور عالمی سطح کی شخصیت پر کوئی تحقیق یا تنقید سمجھنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مانند ہے۔بہرحال تحقیق کے بغیر تنقید اور علم و ادب کا ارتقا ئی سفر رْک جاتا ہے۔لہٰذا میں اپنے موضوع کے انتخاب کے مطابق علم کا سفر جاری رکھتی ہوں‘‘۔
کتاب "اقبال سیالکوٹ میں” کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے اقبالیات کے ایک نسبتاً کم چھوئے گئے پہلو کو منظم اور تحقیقی انداز میں سامنے رکھا ہے۔ عام طور پر اقبال کو لاہور یا یورپ کے تناظر میں زیادہ سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ کتاب بتاتی ہے کہ سیالکوٹ کا تعلق اقبال کی ذات کے ساتھ محض ایک بچپن کی یاد نہیں بلکہ ایک دائمی وابستگی تھی، جو خط و کتابت، دورہ جات اور خاندانی روابط کے ذریعے آخری دم تک قائم رہی۔ حمیرا جمیل رقمطراز ہیں کہ:
’’علامہ اقبال مفکرِ اسلام، فلسفی ، شاعر ،ادیب ،شاعر ِ مشرق کا اعزاز رکھنے والے ، تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔اقبال ماضی ،حال اور مستقبل تینوں کا احساس اور گہر اادراک رکھتے ہیں۔دنیا بھر میں تحقیق و تنقید کے حوالے سے،اقبال کے فکر و فن پر بہت کام ہوا۔ گو کچھ موضوعات ابھی بھی تشنہ ،اور نظر ثانی کے منتظر ہیں۔اقبال پر کام کرنے کے لیے بہت سے ادارے اور جامعات میں شعبہ جات قائم ہوچکے ہیں جہاں پر اقبال پر تحقیقی و تنقیدی علامہ اقبال مفکرِ اسلام، فلسفی ، شاعر ،ادیب ،شاعر ِ مشرق کا اعزاز رکھنے والے ، تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔اقبال ماضی ،حال اور مستقبل تینوں کا احساس اور گہر اادراک رکھتے ہیں۔دنیا بھر میں تحقیق و تنقید کے حوالے سے،اقبال کے فکر و فن پر بہت کام ہوا۔ گو کچھ موضوعات ابھی بھی تشنہ ،اور نظر ثانی کے منتظر ہیں۔اقبال پر کام کرنے کے لیے بہت سے ادارے اور جامعات میں شعبہ جات قائم ہوچکے ہیں جہاں پر اقبال پر تحقیقی و تنقیدی نوعیت کا کام جاری ہے۔موضوعات کے اعتبار سے اقبال کی شخصیت و فن ہمہ گیر ہے۔پیش نظر کتاب میں سیالکوٹ کا تاریخی و ادبی پس منظر ،علامہ اقبال کے قیام سیالکوٹ کا اجمالی جائزہ ،علامہ اقبال کے سیالکوٹ میں رابطے بذریعہ خطوط اور سیالکوٹ میں اقبال شناسی کی روایت پر روشنی ڈالی گئی ہے‘‘۔
مصنفہ نے اس کتاب میں نہ صرف اقبال کے ذاتی تعلق کو موضوع بنایا بلکہ یہ بھی دکھایا کہ سیالکوٹ میں اقبال شناسی کی ایک مضبوط روایت پروان چڑھی، جس میں ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید عرفانی جیسے بڑے نام سامنے آئے۔ اسی تناظر میں "اقبال منزل” کی حیثیت اور اس شہر کی ادبی سرگرمیوں کی نئی جہات کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ میاں ساجد علی علامہ اقبال اسٹیمپس سوسائٹی لاہور کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’سیالکوٹ سے جڑی آپ کی زندگی کو ہی بنیاد بنا کر حمیرا جمیل نے یہ کتاب تیار کی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ اُن کی اِس کاوش کو نہ صرف خواجہ عبدالحمید عرفانی کا ہے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی اقبال کی شخصیت سب سے توانا اور بلند مقام پر قائم ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر ماہرین اقبالیات نے بہت کام کیا ہے لیکن سیالکوٹ میں اقبال کی زندگی یا پھر سیالکوٹ سے جڑی اقبال کی زندگی پر کام کسی ایک جگہ اب تک یکجا نہیں تھا‘‘۔
میاں ساجد علی کے مطابق، یہ کام دراصل سیالکوٹ کے باسیوں پر قرض تھا، جسے حمیرا جمیل نے اپنی تحقیقی بصیرت سے ادا کیا۔ ان کے خیال میں یہ کتاب اقبال شناس طبقے میں ایک خلا پر کرنے کی کوشش ہے، جو اب تک بکھری ہوئی معلومات کو یکجا کر کے ایک تحقیقی دھارے میں لاتی ہے۔
حمیرا جمیل کی تحریر میں دو نمایاں پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں: ایک ادبی لطافت اور دوسرا تحقیقی باریک بینی۔ انہوں نے اپنے مطالعے میں "کلیات مکاتیبِ اقبال” اور مختلف مقالوں و کتب سے استفادہ کیا ہے۔ ساتھ ہی، ڈاکٹر منور ہاشمی اور دیگر ماہرین کی معاونت کتاب کی تحقیقی بنیادوں کو مضبوط بناتی ہے۔
کتاب کا اسلوب نہایت شگفتہ ہے اور سیالکوٹ کے تاریخی و جمالیاتی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے مصنفہ نے ایک ایسی فضا تخلیق کی ہے جو قاری کو علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی کے ماحول سے روشناس کراتی ہے۔
دخترِ سیالکوٹ حمیرا جمیل (ولادت: 3 مئی 1996ء) اقبالیات میں نمایاں مقام رکھنے والی نئی نسل کی مصنفہ ہیں۔ وہ کلامِ اقبال (اردو و فارسی) کی شرح کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ ان کی تعلیم گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ سے بی ایس آنرز اردو اور ایم ایس سی اردو پر مشتمل ہے۔ ان کا تحقیقی مقالہ "قیامِ پاکستان کے بعد اقبال شناسی میں خواتین کا حصہ” ان کے اقبالیات کے گہرے مطالعے کی گواہی دیتا ہے۔
کالم نگاری، افسانہ نویسی اور تدریس کے ساتھ ساتھ ان کی 20 سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں، جن میں "درد کا سفر”، "تلخ حقیقت”، "بیانِ اقبال”، "تفہیمات کلیاتِ اقبال” اور "اقبال خواتین کی نظر میں” جیسی کتابیں شامل ہیں۔ انہیں متعدد ادبی و تحقیقی ایوارڈز سے نوازا گیا ہے، خصوصاً اس اعزاز کے ساتھ کہ وہ اقبال شناسی میں خواتین کے کردار کو آگے بڑھانے والی نمایاں شخصیت ہیں۔
کتاب "اقبال سیالکوٹ میں” کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے ایک ایسی فکری و تاریخی روایت کو محفوظ کیا جو بکھری ہوئی تھی۔ تاہم، تنقیدی سطح پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس میں سیالکوٹ کی اقبال شناسی کی موجودہ صورت اور نوجوان نسل کے ساتھ اس کے تعلق پر مزید بحث شامل کی جاتی تو کتاب زیادہ ہمہ گیر ہو جاتی۔ ساتھ ہی اقبال کی ابتدائی تعلیم پر اساتذہ کے اثرات اور مقامی معاشرتی اقدار کا تفصیلی تجزیہ بھی مزید گہرائی پیدا کر سکتا تھا۔
"اقبال سیالکوٹ میں” نہ صرف سیالکوٹ کی ادبی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے بلکہ اقبالیات میں بھی ایک نئی سمت متعارف کراتی ہے۔ یہ کتاب اس بات کا ثبوت ہے کہ نوجوان نسل میں اقبالیات کے حوالے سے کس طرح سنجیدہ اور تحقیقی شعور پروان چڑھ رہا ہے۔ حمیرا جمیل کی یہ کاوش مستقبل کے محققین کے لیے ایک بنیاد اور رہنمائی فراہم کرنے کا سبب بنے گا۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سیالکوٹ اور اقبال کا تعلق ایک روحانی رشتہ ہے، اور اس رشتے کو حمیرا جمیل نے اپنے قلم کے ذریعے زندہ کر دیا ہے میں مصنفہ کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |