مٹی کے ہاتھ ، سونے کا لمس
ان کے ہاتھ مٹی کے ہیں مگر وہ جس کاروبار کو بھی ہاتھ لگاتے ہیں وہ سونا بن جاتی ہے۔ میری اور ان کی دوستی کو کم و بیش 17 سال ہونے کو ہیں۔ اس دوران میں نے انہیں 3 نئے کاروبار شروع کرتے دیکھا ہے اور وہ ان تینوں میں حد درجہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اب وہ چوتھا نیا کاروباری منصوبہ شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور نظر یہی آ رہا ہے کہ وہ اس میں بھی یقینی طور پر کامیاب ہوں گے!
میں متحدہ عرب امارات، دبئی میں نیا کاروبار کرنے پہنچا تو ان کا کاروبار پہلے ہی جوپن پر تھا۔ مجھے ترقی کرتے دیکھ کر انہیں حسرت ہوئی اور انہوں نے بھی کنسٹرکشن کا کام شروع کر دیا۔ تب میں تھوڑے کم اور وہ زرا زیادہ پیسے کمانے لگے، اور اتنے کمائے کہ وہ ہر ماہ پانچ لاکھ درہم تک (جو کہ پاکستانی روپے میں تقریبا پونے چار کروڑ بنتے ہیں) کی وصولی کرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد تعمیرات کے کام میں ادائیگیاں رکنے لگیں اور "مندی” آئی تو وہ جمپ لگا کر ریسٹورنٹس کے کاروبار میں چلے گئے۔ میں ابھی کنسٹرکشن ہی میں مغز ماری کر رہا تھا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے 3 ریسٹورنٹس کے مالک بن گئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ ایسے ریسٹورنٹس تلاش کرتے جو ناکام ہو کر بند پڑے ہوتے تھے۔ میرے سامنے انہوں نے ان ریسٹورنٹس کے "بیانے” دیئے اور ایک لمحہ کو بھی نہیں سوچا کہ وہ ناکام پڑے کاروبار کو کامیاب کیسے کریں گے؟ صرف ایک ریسٹورنٹ کی مثال دیتا ہوں کہ انہوں نے اسے محض 70 ہزار درہم کی "گڈ ول” دے کر خریدا۔ ایک سال چلا کر کامیاب کیا اور پھر کراچی کی ایک پارٹی کو 7 لاکھ درہم میں فروخت کر دیا۔
ان کی کامیابی کا ایک خاص راز ہے ان سطور میں اس راز سے پردہ اٹھانا مقصود ہے۔ ان کا نام حسین مدثر ہے اور ان کا تعلق پاکستان گوجرانوالہ سے ہے۔ وہ گول مٹول چہرے، درمیانے قد اور سفید رنگت کے آدمی ہیں۔ وہ انتہائی موقع شناس ہیں، وہ اپنی شخصی پہچان اور شناخت سے ایسی محنتی اور ایماندار ٹیم تیار کرتے ہیں جو کوتاہی کرنے یا انہیں دھوکہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی ہے۔ میری ان سے فضول خرچی کی حد تک مہنگی چیزیں خریدنے پر اکثر بحث ہوتی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ کاروبار میں یہ چیزیں ضروری ہیں۔ وہ کہتے ہیں جو خرچ کر سکتا ہے وہی کماتا ہے۔ ہمارا بہت دفعہ جھگڑا بھی ہوا ہے مگر پھر جب میں سوچتا ہوں کہ وہ کماتے ہیں تو انہیں خود پر خرچ کرنے کا بھی حق ہے۔ نجانے پیسہ کمانے کا یہ گر سیکھنے تک وہ کتنی مشکلات اور دکھوں سے گزرے ہوں گے۔ اگر انہوں نے اس راہ میں تکلیفیں اٹھائی ہوں گی تو اب انہیں راحتوں، آرام و سکون اور خوشی سے لطف اندوز ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ اس بات کا وہ خود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب ان کے پاس رہنے کی جگہ نہیں تھی اور کچھ کھانے کو پیسہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ کئی کئی راتیں انہوں نے بھوکے سو کر گزاریں۔ لیکن جب پیسہ آنا شروع ہوا ہے تو اتنا آ رہا ہے کہ وہ لوگوں کو قرض دے کر بھول جاتے ہیں۔ لیکن اسی سخاوت اور خود پر خرچ کرنے سے ان کی ظاہری کاروباری "ورتھ” میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ایک آدمی سے انہوں نے 1 لاکھ 20 ہزار درہم لینا ہے جو ایک کروڑ روپے سے زیادہ بنتا ہے۔ ایک دفعہ وہ پیسے لینے کے لیئے ان کے گھر چلے گئے۔ اس قرض دار نے اپنا زیور اور گاڑی کی چابیاں ان کے حوالے کر دیں جسے وہ وہیں چھوڑ کر واپس آ گئے۔ اب دو سال ہو گئے ہیں اس سے دوبارہ انہوں نے پیسے نہیں مانگے۔ ایک درجن سے زیادہ لوگ میرے علم میں ہیں، کسی نے 20 ہزار درہم، کسی نے 30 اور کسی نے 40 ہزار درہم ان کا دینا ہے۔ یہ لوگ دوبارہ ان کے پاس آتے ہیں کوئی نہ کوئی رام کہانی سناتے ہیں اور ان سے مزید قرض لے کر چلے جاتے ہیں۔ جس آدمی کا نام حسین مدثر ہے ان لوگوں کو پہلے دیا ہوا اپنا قرض واپس مانگتا ہے، نہ ان سے تنگ پڑتا ہے اور نہ ہی انہیں مزید قرض دینے سے انکار کرتا ہے۔ یہ میرے سب سے قریبی دوست ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے یہ آخری فون مجھے کرتے ہیں اور صبح اٹھنے کے بعد بھی سب سے پہلا فون مجھے کرتے ہیں۔ دن کے کام سے جونہی فری ہوتے ہیں وہ مجھے اپنی مرسیڈیز پر پک کرنے آ جاتے ہیں۔ ہم دن میں ایک بار تقریبا روزانہ اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ بعض دفعہ دو چار دوست اور بھی ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن میں نے 17 سال کی دوستی میں ایک بار بھی ایسا نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی دوسرے کو کھانے کا بل دینے کی اجازت دی ہو۔ وہ روزانہ مختلف ممالک کے ریسٹورنٹس پر کھانا کھانے کا بل کم و بیش 3 سے 4 سو درہم دیتے ہیں حالانکہ ان کے اپنے ریسٹورنٹس ہیں اور وہ "میاں جی ریسٹورنٹس” کی 13 برانچز کے سپانسر اور حصہ دار بھی ہیں مگر وہ کھانا ہمیشہ باہر سے کھاتے ہیں۔
جب وہ کنسٹرکشن کا کام کر رہے تھے تو مختلف کمپنیوں میں ان کا لگ بھگ 13 لاکھ درہم پھنس گیا، جس کا ایک دو بار انہوں نے پیچھا کیا مگر وہ واپس پلٹ کر انہیں شرمندہ یا تنگ کرنے نہیں گئے۔ وہ تین چار آدمیوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے ہیں مگر وہ بھی جب ان کے پاس کوئی ضرورت لے کر آ جاتے ہیں تو وہ انہیں خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے ہیں۔ میں نے کئی دفعہ محسوس کیا کہ بعض صورتوں میں لوگ انہیں "مس یوز” کرتے ہیں یا انہیں "بے وقوف” بناتے ہیں مگر وہ ہمیشہ ان کے سامنے نرم پڑ جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں بے وقوف بننے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔ اس کے باوجود پیسہ ان پر عاشق ہے اور وہ دوسروں پر جتنا زیادہ خرچ کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ پیسہ ان کے پاس مزید آ جاتا ہے۔
حسین مدثر صاحب سنت ابراہیمی پوری کرتے ہیں اور کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے ہیں، وہ سخی ہیں کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتے ہیں۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ، "دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے۔” ان کی کامیابیوں کی بنیادی وجہ ان کی سخاوت اور مہمان نوازی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے بارے بتاتے ہیں کہ انہیں والد کی دعا ہے۔ ہم دوست ان کی خرچ خواہی اور دریا دلی کی وجہ سے انہیں "بادشاہ” کہتے ہیں۔ لیکن ان کی کاروباری کامیابیوں کی اصل وجہ کیا ہے میں مکمل طور پر ابھی تک جاننے سے محروم ہوں۔ وہ ہر دوسرے تیسرے ماہ پاکستان جاتے ہیں۔ جونہی ضرورت مندوں کو پتہ چلتا ہے کہ وہ آ گئے ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ شائد ان کی دولت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ دینے والوں کو اور دیتا یے۔ جو لوگ اس بات پر کامل ایمان رکھ کر دولت بانٹتے رہتے ہیں وہ جتنی بانٹتے ہیں اس سے دگنی ان کے پاس واپس آ جاتی ہے۔
ایک حکایت مشہور ہے کہ ایک سخی کے پاس ایک مہمان آ جاتا ہے تو ایک سفید داڑھی والے بزرگ ان کے گھر میں آٹا پہنچاتے دکھائی دیتے ہیں اور جب کسی وجہ سے وہ مہمان کھانا نہیں کھاتا اور چلا جاتا ہے تو وہ بزرگ اس گھر سے وہی آٹا واپس لے جاتے ہیں۔ ہر انسان اپنا مقدر کھاتا ہے۔ کوئی انسان کسی کو نہیں کھلا سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ "مہمان نوازی” ایک توفیق ہے جو قسمت والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ دوسروں کو کھانا کھلانے سے پیسے کبھی ختم نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس میں برکت پڑتی ہے۔ ایک محاورہ بھی ہے کہ "ہر دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے۔” میں ایسے غیر معمولی انسانوں اور "سیلف میڈ مین” لوگوں پر اکثر لکھتا رہتا ہوں۔ آپ کے پاس بھی کوئی سٹوری ہو تو مجھ سے ضرور شیئر کریں۔ اللہ پاک حسین مدثر کے کاروبار اور رزق میں برکت عطا فرمائے۔ ایسے لوگ انسانی معاشرے کا قابل فخر سرمایہ ہیں۔
امارت کی نسبت نام اور کسی خوبی سے بھی ہو سکتی ہے۔ میں نے "حسین” نام کے لوگوں کو اکثر امیر دیکھا ہے۔ جو کامیابی کے لیئے تو قربانی دیتے ہیں ان کی کامیابی بھی سوا ہوتی ہے خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے فرمایا تھا ، "شاہ است حسینؑ و بادشاہ است حسینؑ تو یہ برکت بادشاہ حسین ؑ کے نام کی ہے۔”
Title Image Background by Pavol Chren from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |