سعودی عرب کو پہلا نوبیل پرائز مبارک ہو
دو سال سے آگ اور خون میں جھلسنے کے بعد غزہ سے دو اچھی خبریں آئی ہیں۔ پہلی خبر غزہ میں عارضی جنگ بندی کی ہے اور دوسری خبر یہ ہے کہ غزہ کے والدین کے ہاں ایک اومانی مہاجر کیمپ میں پیدا ہونے والے ایک سائنس دان بچے، جس کے پاس اب سعودی عرب کی شہریت ہے، کو کیمسٹری میں "نوبیل پرائز” دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب یہ بچہ بڑا ہو گیا ہے اور کیمسٹری کا عظیم الشان سائنس دان ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی غزہ میں جنگ بندی اور امن کی بحالی کی بنیاد پر "نوبیل پیس پرائز” حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور اسی مقصد کے پیش نظر انہوں نے غزہ کے لیئے اپنا 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا اور اب جنگ بندی بھی کروائی ہے۔ خدا کرے! کہ یہ جنگ بندی مستقل بنیادوں پر قائم رہے اور اس کے بعد فلسطین دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر ابھرے۔ غزہ میں جنگ بندی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر تجزیہ پھر کسی اظہاریہ میں کریں گے، آیئے پہلے ہم فلسطینی سائنس دان کو ملنے والے نوبل پرائز پر بات کرتے ہیں۔
یہ انتہائی قابل فخر خبر ہے کہ پہلے فلسطینی سعودی شہری، اور بڑے عرصے کے بعد ایک مسلمان سائنس دان کو انسانیت کی خدمت پر کیمسٹری کا نوبیل پرائز دیا گیا ہے۔ یہ کہانی غزہ کی غربت اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے اس قابل فخر بچے کی ہے جس نے مشکلات کے اندھیرے میں آنکھ کھولی اور پھر روشنی اور امید کی ایسی دنیا تخلیق کی جس میں مایوسی ہاری اور جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ جب قدرت کسی کو کوئی صلاحیت بخشتی ہے تو وہ ریت کی تپتی اور گرم لو کو بھی "باد صبا” میں بدل دیتی ہے۔ یہ بچہ جو ریت کے ٹیلوں میں خلا کو گھورتے ہوئے پیدا ہوا تھا، اس نے اپنی پیدائش پر ہی سوچا ہو گا کہ آگ کے صحرا کے اندر کیا راز چھپے ہوئے ہیں، اور پھر شعور پانے پر برسوں بعد، اس نے مادے کے اندر سے ایسے منعکسی اور جازبی کمرے دریافت کر لیئے جو صحرا کی گرم ہوا سے ٹھنڈا پانی کشید کر سکتے ہیں۔
عمان کی آگ جیسی شدت رکھنے والی گرمی میں پیدا ہونے والے اس بچے کو نوبیل پرائز ملنے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ یاد آ گیا ہے جن کے لیئے آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ آگ جیسی گرمی میں پرورش پانے والا یہ لڑکا، جہاں پانی اور بجلی کی قلت تھی، ایک ایسے فلسطینی خاندان میں پلنے لگا جو غزہ سے بے دخل ہو کر اپنے پاو’ں پر کھڑا ہونے کی جدوجہد کر رہا تھا۔ لیکن اس لڑکے کی آنکھوں میں غربت اور بے بسی نہیں، بلکہ ایک لامتناہی تجسس تھا۔ اس نے اپنی محرومیوں کو اپنی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد یہ سفر ایک تنگ کمرے سے نکل کر پوری کائنات میں پھیلے دور دارز کے ذروں تک جا پہنچا۔
سنہ 1965ء میں پیدا ہونے والے اس فلسطینی بچے کا نام والدین نے "عمر یاغی” رکھا۔ اس کے لئے زندگی آسان نہیں تھی۔ اسے انگریزی زبان اور پیسہ، دونوں بہت دیر سے ملے۔ لیکن اس نے کسی بھی رکاوٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ ٹھہرا نہیں، اس نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ وہ 15 سال کا تھا جب اس کے والدین امریکہ منتقل ہوئے۔ عمر یاغی نے بغیر کسی خاص تیاری کے محض اپنی محنت اور لگن کی بنیاد پر کمیونٹی کالج میں داخلہ لیا، پھر کیمسٹری میں ڈگری حاصل کی، اور ہارورڈ جیسے ادارے سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کی زندگی کا ایک ہی اصول تھا کہ درستگی کے ساتھ تجربات کرو اور پھر اس کے نتائج کو دنیا کے استفادے کے لئے آگے پھیلا دو۔ عمر یاغی نے دنیا کو ایک نئے علم سے متعارف کروایا، جسے اس نے "ریٹیکولر کیمسٹری” کا نام دیا۔ اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو، یہ مالیکیولز کو مضبوط دھاگوں سے بُن کر انہیں کھلے اور کرسٹل جیسے ڈھانچوں میں بدلنے کا انوکھا فن ہے۔ تصور کریں کہ یہ ایسے خول ہیں جن کے اندر بے تحاشا خالی جگہ ہوتی ہے۔ ان کے بنائے ہوئے مٹیریل (ایم او ایف ایس) کا ایک چینی کے دانے کے برابر ٹکڑا اپنے اندر ایک فٹ بال کے میدان جتنی سطح رکھ سکتا ہے، جو کہ ایک بلکل نیا اور حیران کن انکشاف ہے!
یہ ایک ایسی انوکھی ایجاد کا دروازہ تھا جس سے ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پکڑ سکتے ہیں، زہریلے مادوں کو قید کر سکتے ہیں، ہائیڈروجن کو ذخیرہ کر سکتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر، خشک ترین ہوا سے پانی حاصل کر سکتے ہیں۔
اور پھر دنیا نے ان کی اس بصیرت افروز ایجاد کو اس وقت کھلے دل سے تسلیم کیا جب ستمبر 2025ء میں، کیمسٹری کا نوبل انعام عمر یاغی اور ان کے دو ساتھیوں کو "میٹل آرگینک فریم ورکس کی تیاری” پر دیا گیا۔ یہ صرف ایک انعام نہیں ہے بلکہ اس انقلاب کا ایسا اعتراف ہے جس کی بنیاد عمر یاغی نے رکھی تھی۔ آج ہزاروں قسم کے "ایم او ایف ایس” موجود ہیں، کچھ زہریلے کیمیکلز کو صاف کرتے ہیں، کچھ آلودگی کو توڑتے ہیں، اور کچھ آسمان سے پانی نچوڑ کر لاتے ہیں۔
سعودی عرب کے شہری عمر یاغی کو یہ کامیابی آسانی سے نہیں ملی، یہ کامیابی زبان کی رکاوٹیں، پیسے کی تنگی، امیگریشن کے مسائل، اور ابتدائی دنوں میں درجنوں بار مسترد کئے جانے کا درد لیئے ہوئے ہے، جس میں عمر یاغی کو خود کو منوانے کے لئے دوسروں سے دگنی محنت کرنی پڑی۔ لیکن اس نے اپنے مقصد کے حصول میں ہمت نہیں ہاری۔ بچپن میں مہاجر کیمپوں میں پانی کی جو کمی عمر یاغی نے محسوس کی تھی، وہی اس کی زندگی کا سائنسی ہدف بن گئی، اور وہ ایک ایسی مشین بنانے میں کامیاب ہو گیا جو صحرا کی ہوا سے، جہاں نمی نہ ہونے کے برابر ہو، روزانہ کئی لیٹر پانی نکال سکتی ہے۔
عمر یاغی نے سنہ 2021ء میں سعودی شہریت قبول کی، اور وہ نوبیل انعام جیتنے والے پہلے سعودی شہری بن گئے۔ وہ سائنس میں نوبیل انعام جیتنے والے پہلے فلسطینی نژاد سائنس دان بھی ہیں۔ مدتوں بعد کسی مسلمان کو سائنس میں نوبیل پرائز کا اعزاز ملا ہے. عمر یاغی کی شناخت کی بہت سی پرتیں ہیں، لیکن ان کی سائنس ایک ہے، جو کہ پوری انسانیت کے لئے ہے۔
عمان کے ایک گنجان آباد کمرے سے نکلنے والا ایک نوجوان آج دنیا کو مادے کے اندر کمرے بنانا سکھا رہا ہے۔ اس نے وہاں جگہ بنائی ہے جہاں کسی جگہ ہونے کے بارے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، پہلے اپنے لئے، پھر ایٹموں کے لئے، اور آخر میں ان تمام انسانوں کے لئے جنہیں صاف ہوا، پانی اور صنعت کی ضرورت ہے۔
فلسطینی بچے کی یہ کہانی ہمیں سیکھاتی ہے کہ اگر ایک مہاجر کیمپ میں اپنی زندگی کا آغاز کرنے والا اور دربدر بھٹکتا ہوا بچہ، اپنے خوابوں کا تعاقب کرتے ہوئے، نوبیل پرائز جیت سکتا ہے تو پھر آپ کے اور میرے پاس اپنے خوابوں کو پورا نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہونا چایئے۔ جب انسان کوئی بلند مقام حاصل کرنے کا ٹھان لے تو وہ اسے حاصل کر کے ہی دم لیتا ہے۔
غزہ کے ماں باپ کے ہاں پیدا ہونے والے سعودی عرب کے مفلوک الحال بچے نے تو نوبیل پرائز جیت لیا ہے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیئے غزہ میں مستقل امن قائم کر کے نوبیل پرائز جیتنا ابھی باقی ہے۔ مالی طور پر مضبوط مسلم ملک کے لیئے عمر یاغی کا اسے پہلا نوبیل پرائز دلانا بہت بڑا اعزاز پے۔ اس سے نہ صرف سعودی عرب کے طلباء میں علمی جستجو اور سائنس و ٹیکنالوجی میں دلچسپی پیدا ہو گی بلکہ اس سے پوری مسلم دنیا میں بھی علمی آگاہی پیدا جنم لے گی۔ دعا ہے کہ عزہ میں امن قائم ہو جائے، فلسطینی قربانیاں رنگ لائیں اور فلسطین بھی آزاد ہو جائے۔ پھر غزہ کے نام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی امن کا نوبیل پرائز دینے میں یقینا کوئی حرج نہیں ہو گا۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |