جنگ زلاقہ
اس اظہاریہ میں ہم مسلمان فاتح یوسف بن تاشفین کا مفصل جائزہ پیش کرتے ہیں جنہوں نے 77 برس کی عمر تک مسلم فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور مسیحی بادشاہ الفانسو کو 23 اکتوبر 1086ء میں زلاقہ کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ میں بدترین شکست سے دوچار کیا۔ عظیم مسلمان فاتح یوسف بن تاشفین مراکش کے جنوب میں صحرائی علاقے کا رہنے والا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے صحرائے اعظم اور اس کے جنوب میں خاندان مرابطین کی حکومت قائم کی اور بعد ازاں اسے اسپین تک پھیلا دیا۔
اس نے صحرائے اعظم میں رہنے والے نیم وحشی اور حبشی باشندوں سے کئی سال تک جنگیں لڑیں اور اپنی حکومت کو دریائے سینی گال تک پھیلا دیا۔ یوسف بن تاشفین کے فوجی ان قبائل کے خلاف جہاد ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان میں اسلام کی تبلیغ بھی کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے بے شمار بربروں اور حبشیوں کو مسلمان کیا۔ تبلیغ کا یہ کام یوسف بن تاشفین کے چچا عبداللہ بن یٰسین کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے دریائے سینی گال کے ایک جزیرے میں ایک خانقاہ بھی بنائی تھی۔
آغاز میں یوسف بن تاشفین اس کام میں اپنے چچا کے ساتھ تھا لیکن بعد میں وہ شمال کی طرف آ گیا اور یہاں فاس اور دوسرے شہر فتح کر کے کوہ اطلس کے دامن میں واقع شہر مراکش کی بنیاد ڈالی۔ اسی دوران اندلسی مسلمانوں کا وفد یوسف بن تاشفین سے امداد لینے کے لئے اسی شہر مراکش میں آیا تھا۔ جنگ زلاقہ سے پہلے اندلسی مسلمان مجاہدین نے اپنے طور پر چند سالوں تک مسیحیوں کی یلغار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر چونکہ وہ کمزور تھے لہٰذا انہوں نے یوسف بن تاشفین سے مدد مانگی۔ یوسف بن تاشفین اندلسی مسلمانوں کی مدد کے لئے تیار ہو گیا اور ایک طاقتور فوج کے ساتھ اندلس روانہ ہوا۔ 1086ء میں مسیحی بادشاہ الفانسو نے ”زلاقہ“ کے میدانِ جنگ میں مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ ایک سخت لڑائی کے بعد یوسف بن تاشفین نے الفانسو کو شکست دی۔ جنگ زلاقہ نے ایک انقلاب پیدا کر دیا، مسیحیوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور یوسف بن تاشفین نے اندلس کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کر کے ان کو "سلطنت مرابطین” میں شامل کر لیا۔ ہشام ثانی نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں ہسپانیہ میں ابھرتی ہوئی مسیحی ریاستوں کے خلاف 52 مہمات میں حصہ لیا اور کبھی بھی شکست نہیں کھائی لیکن 1002ء میں اس کے انتقال کے بعد اسپین میں مسلم حکومت کو زوال آ گیا اور وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
سنہ 1082ء میں الفانسو ششم نے قشتالہ سے اپنی تاریخی فتوحات کے سفر کا آغاز کیا۔ نااہل مسلم حکمرانوں میں اسے روکنے کی ہرگز صلاحیت نہیں تھی۔ 1085ء میں اس نے بنو امیہ کے دور کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ شہر کے کمزور مسلم باسیوں نے 5سال تک مسیحیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی لیکن بالآخر ہمت ہار بیٹھے۔ الفانسو کا اگلا ہدف سرغوسہ کی کمزور ریاست تھی۔ مسلم حکمرانوں کی نااہلی کے مکمل ادراک کے بعد علما نے شمال مغربی افریقہ میں دولت مرابطین کے امیر یوسف بن تاشفین سے رابطہ کیا اور ان سے اندلس کی ڈوبتی ہوئی مسلم ریاست کو بچانے کا مطالبہ کیا۔
جنگ کی تیاریوں کے دوران اشبیلیہ، غرناطہ اور بطليوس (باداجوز) کے قاضیوں نے یوسف بن تاشفین سے مطالبہ کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ وہ مقامی حکمرانوں کی خود مختاری برقرار رکھیں گے۔ یوسف بن تاشفین نے تمام شرائط تسلیم کر لیں جس کے بدلے میں انہیں وہاں قلعہ قائم کرنے اور اپنی افواج کو منظم کرنے کے لئے ساحلی شہر الجزیرہ سے نوازا گیا۔ انتظامات مکمل کرنے کے بعد یوسف بن تاشفین 12 ہزار فوجیوں کے ساتھ اشبیلیہ روانہ ہوا اور الجزیرہ کے قلعے میں 5 ہزار فوجیوں کو چھوڑا۔ وہ 8 روز تک اشبیلیہ میں رہا اور اندلس کے حکمرانوں کی جانب سے فراہم کردہ فوجی دستوں کی ترتیب و تنظیم کرتا رہا۔ کل 20ہزار افواج کے ساتھ یوسف بن تاشفین شمال کی جانب روانہ ہوا جہاں اس کا ٹکرا’و زلاقہ کے میدان میں قشتالہ کے بادشاہ الفانسو ششم سے ہوا۔ الفانسو کو 80ہزار شہسواروں، 10ہزار پیادوں اور 30 ہزار کرائے کے فوجیوں کی خدمات حاصل تھیں۔ 20 ہزار مسلم افواج میں سے شامل 12 ہزار بربر (10 ہزار شہسوار اور 2 ہزار پیادہ) بہترین جنگجو تھے۔ دونوں سپہ سالاروں نے جنگ سے قبل پیغامات کا تبادلہ کیا۔ یوسف بن تاشفین نے دشمن کو تین تجاویز پیش کیں کہ اول اسلام قبول کرو، دوم جزیہ ادا کرو اور سوم پہلی دو شرائط قبول نہیں ہیں تو جنگ کے لیئے تیار ہو جاو۔
امام ذہبی نے لکھا ہے کہ “جب مسلم اسپین میں طوائف الملوکی پھیلی اور یہ موقع دیکھ کر صلیبی بادشاہ الفانسو پوری تیاری کے ساتھ مسلم خطوں پر چڑھ دوڑا تو ملوک الطوائف میں سب سے نمایاں بادشاہ معتمد بن عباد نے مراکش کے یوسف بن تاشفین کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ اس پر اعیانِ سلطنت سٹپٹا گئے کہ مراکش کا وہ سلطان اندلس آیا تو الفانسو کو شکست دے کر وہ اسپین تمہیں واپس تھوڑی دے گا۔ یہاں معتمد نے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا کہ "دیکھو، مراکش کے یوسف بن تاشفین کے اونٹ چرانا اسپین کے الفانسو کے خنزیر چرانے سے کہیں باعزت ہے!”
الفانسو نے مرابطین سے جنگ کو ترجیح دی۔ جنگ 23 اکتوبر 1086ء بروز جمعہ صبح سورج نکلتے وقت الفانسو کے حملے کے ساتھ شروع ہوئی۔ یوسف بن تاشفین نے اپنی فوج کو دستوں میں تقسیم کیا۔ پہلے دستے کی قیادت عباد ثالث المعتمد کر رہا تھا جبکہ دوسرے دستے کی قیادت خود یوسف بن تاشفین نے کی۔ دوپہر تک المعتمد کی افواج ہی الفانسو کا مقابلہ کرتی رہیں جس کے بعد یوسف بن تاشفین اپنی فوج سمیت جنگ میں داخل ہوا اور الفانسو کی افواج کا گھیراو’ کر لیا جس پر مسیحی افواج میں افراتفری پھیل گئی اور یوسف بن تاشقین نے سیاہ فام باشندوں پر مشتمل تیسرے دستے کو حملے کا حکم دے دیا جس نے آخری اور فیصلہ کن حملہ کرتے ہوئے جنگ کا فیصلہ مسلم افواج کے حق میں کر دیا۔
مشہور مراکشی مورخ ابن عدالتی نے اپنی کتاب “البیان آلمغرب“ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی عظیم الشان فتح کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 60000 ہزار کے مسیحی لشکر میں سے 59500 فانسو فوجی اس جنگ میں کام آئے جبکہ الفانسو زندہ بچ نکلنے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی اور وہ بقیہ عمر لنگڑا کر چلتا رہا۔ اس میدان میں لڑی گئی لڑائی کو "جنگ زلاقہ” کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے کیونکہ معرکے کے روز اس قدر خون بہا کہ افواج کو قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی۔ مسیحی ذرائع اس جنگ کو "بیٹل آف سگریجاس” کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس تاریخی فتح کے نتیجے میں اگلے 300 سال تک اسپین میں مسلم حکومت موجود رہی بصورت دیگر وہ 1492ء کے بعد 1092ء میں ہی ختم ہونے جا رہی تھی۔
اس جنگ کو "صلیبی جنگوں” کے آغاز کی اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں شکست کے بعد ہی مسیحیوں نے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جارحیت کے سلسلے کا آغاز کیا۔
یوسف بن تاشفین نے 1061ءسے 1107ءتک حکومت کی۔ یہ بڑا نیک اور عادل حکمران تھا، اس کی زندگی بڑی سادہ تھی۔ تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ صحرائے اعظم میں اسلام کی اشاعت اور اندلس میں مسیحی یلغار کو روکنا اس کے بہت بڑے کارنامے ہیں۔ شہر مراکش کی تعمیر بھی قابل فخر کارناموں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس طرح اس نے ایک نیم وحشی علاقے میں دار الحکومت قائم کر کے تہذیب اور علم کی بنیاد رکھی۔ یوسف بن تاشفین نے تقریباً 50 سال حکومت کی۔ اس کی قائم کی ہوئی سلطنت "دولت مرابطین” 1061ء سے لے کر 1147ء تک قائم رہی۔ اس بوڑھے سپہ سالار یوسف بن تاشفین کے انتقال کے بعد بھی یہ حکومت مزید 40 سال تک چلتی رہی۔ الفانسو کے عہد میں جہاں مسلمانوں کو اسپین سے نکال باہر کرنا بظاہر 10 سال کی بات لگتی تھی، اس جنگ کے نتیجے میں انہیں 1492ء تک انتظار کرنا پڑا جب سقوط غرناطہ پیش آیا اور مسلمانوں کو اسپین چھوڑنا پڑا۔ اس جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کا اہم ترین سبب سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسی کے نتیجے سے تلملا کر پوپ اربن دوئم نے یورپ کو مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیا اور چند ہی سالوں کے بعد عیسائی فلسطین پر پل پڑے اور بیت المقدس پر قبضہ کیا جہاں ایک صدی تک دونوں الہامی مذاہب کے ماننے والے باہم دست و گریباں رہے۔
یوسف بن تاشفین کے کارناموں کا مشہور سپینش رزمیہ نظم ایل کینٹر ڈی میو سیڈ میں ذکر موجود ہے اور اسے ایک بار پھر ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ بارہ سو سالہ پرانی یہ نظم کاسٹلین اور سپینش کے قومی ادب کا شاہکار سمجھی جاتی ہے اور اسے سپین کی تاریخ میں بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ انگریزی میں اس نظم کا ترجمہ "پویم آف دی سڈ” کے نام سے ہوا ہے۔ ایل سڈ کو سپین کا سب سے بڑا نیشنل ہیرو مانا جاتا ہے۔
یوسف بن تاشفین کا انتقال 1106ء میں ہوا۔ اس نے سو سال کی عمر پائی۔ اسے رباط میں دفن کیا گیا جہاں اس کا مقبرہ آج بھی زائرین کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس نے بہت اہل اور قابل جانشین چھوڑا ۔ اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے علی بن یوسف بن تاشفین نے اندلس کے مسلمانوں کا بھر پور دفاع جاری رکھا اور جب بھی انہیں مدد کی ضرورت پڑی وہ اندلس پہنچا اور عیسائیوں کو شکست دی ۔
یوسف بن تاشفین گو کہ طلیطلہ تو واپس نہ لے سکا لیکن اس نے اندلس کی چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں کو دوبارہ خلافت بغداد کے پرچم تلے متحد ضرور کر دیا
مشہور مصنف رچرڈ فلیچر اپنی مشہور کتاب "مورش سپین” میں لکھتا ہے کہ "یوسف ابن تاشفین ایک بہت قابل جنرل تھا اس نے اندلسی عربوں اور قبائیلی بربروں کے غیر فطری اتحاد کو بہت اچھی طرح استعمال کیا اور انہیں متحد رکھا۔
ابن تاشفین کو اچانک واپس مراکش جانا پڑا اور اس کی مہم جوئی ادھوری رہ گئی۔ گو کہ مسلمان ایک انچ زمین بھی واپس نہ لے سکے لیکن اس جنگ میں الفانسو کی شکست اتنی مکمل اور فیصلہ کن تھی کہ پھر ساری زندگی دوبارہ وہ اتنی قوت جمع نہ کر پایا کہ عربوں کو سپین سے نکالنے کا سوچ سکے۔ لیکن اس فتح سے عربوں کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ انہیں ایک اور لائف لائن مل گئی اور یوں جہاں ان کا سپین سے خروج دنوں کی بات لگتی تھی وہ 300 سال تک سپین میں اور ٹکے رہے۔
نسیم حجازی نے اپنی کتاب ‘یوسف بن تاشفین’ میں لکھا ہے، "آفتاب کی روشنی میں ہم ان ستاروں کو بھول جاتے ہیں جو رات کی تاریکی میں بھٹکنے والے قافلوں کو منزل راہ دکھاتے ہیں۔ یوسف بن تاشفین ایک آفتاب تھا جو اندلس کے مسلمانوں کے لئے آزادی اور مسرت کی صبح کا پیغام لے کر آیا تھا لیکن اس کی نمود ان گمنام مجاہدوں کی قربانیوں کا صلہ تھی جنہوں نے آلام و مصائب کی تاریک راتوں میں امید کی قندلیں بلند کی تھیں۔”
یوسف بن تاشفین اپنی استقامت اور بہادری کے علاوہ میرا ہم نام ہونے کی وجہ سے میرے بچپن کا ہیرو ہے۔ میں نے گیارہویں جماعت میں نسیم حجازی کا جو پہلا ناول پڑھا وہ یوسف بن تاشفین تھا۔ اس ناول نے مجھ پر ایسا سحر طاری کر دیا تھا کہ میں یوسف بن تاشفین کو کبھی نہ بھلا سکا۔ پی ٹی وی نے 1995ء ء میں یوسف بن تاشفین پر ایک سیریل “پکار” کے نام سے بنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی۔ یوسف بن تاشفین پر ہالی وڈ میں بھی کئی فلمیں بنائی گئیں جن میں انہیں ظالم اور ولن دیکھایا گیا ہے جن میں "ای ایل سڈ” اور "دی لیجنڈ” بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر "دی ایج آف ایمپائر سیکنڈ” اور "دی کنکرر” نامی فلمیں بھی بنائی گئیں۔ یوسف بن تاشفین کو "ای ایل سڈ” کے مقابلے میں بطور ولن پیش کیا گیا ہے جو گیارہویں صدی کا عیسائی "نائٹ” تھا اور سپین کا نیشنل ہیرو ہے جس نے عیسائیوں کو متحد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ یوسف بن تاشفین اس کے بعد بھی تین بار اندلس آیا اور ہر بار ایل سڈ اس کے راستے کی دیوار بنا۔
سپین میں برگوس کے مقام پر ایل سڈ کا ایک بہت بڑا مجسمہ نصب ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |