سفیر پاکستان اک نظر اس طرف
2025 تک، دنیا بھر میں تقریباً 95 لاکھ سے زیادہ پاکستانی اپنے ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کی یہ ایک ریکارڈ تعداد ہے جو غیر ممالک میں تعلیم یا روزگار وغیرہ کے سلسلے میں مقیم ہے۔ سعودی عرب میں 26 لاکھ اور متحدہ عرب امارات میں 17 لاکھ پاکستانی ہیں جو زیادہ تر تعمیراتی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تعداد میں ڈاکٹرز، انجنیئرز، طلباء، اساتذہ، ماہرین تعلیم اور ہنرمند و مزدور وغیرہ بھی شامل ہیں۔
گزشتہ 6 سالوں میں 28لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرون ملک ہجرت کر گئے جبکہ ملک میں 37فیصد افراد ایسے ہیں جو بیرون ملک جانے کے خواہشمند ہیں، جن میں اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہے۔ ایک طرف کم پڑھے لکھے افراد غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش میں اپنی جانیں گنواتے ہیں، تو دوسری جانب قانونی طور پر ملک سے نکلنے کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1971ء سے 2025ء تک 70 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ملک چھوڑا، جن میں ڈھائی لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ساڑھے 4لاکھ انتہائی ہنر مند اور 53لاکھ پیشہ ور ہنرمند شامل تھے۔ مراعات یافتہ ہونے کے باوجود 36فیصد نوجوانوں نے بیرون ملک جانے کو ترجیح دی۔ موجودہ صورتحال کے مطابق 37فیصد پاکستانی بیرون ملک جا کر بسنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یوں شماریات کے مطابق 30 فیصد نوجوان سعودی عرب، 20فیصد دبئی، 9فیصد برطانیہ، 8فیصد کینیڈا اور امریکہ، جبکہ 5فیصد یورپ جانے کے خواہشمند ہیں۔
خاص طور پر اعلی تعلیم کے لیئے جو زہین پاکستانی طلباء باہر کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں جاتے ہیں اور وہ وطن واپس پلٹنے کی بجائے روزگار وغیرہ کے سلسلے میں مستقل طور پر بیرون ملک قیام کرتے ہیں، اس سے پاکستان ان کی ذہانت سے محروم ہو جاتا ہے۔ پاکستانی ذہین طلباء کو متوجہ کرنے کے لیئے امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، کنیڈا اور برطانیہ وغیرہ وظائف اور مفت تعلیم کا پرکشش احتمام کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں کرپشن اور امن و امان کا مسئلہ ہے، معیار زندگی بھی اتنا اچھا نہیں ہے، پاکستانی عوام کو دہشت گردی کا بھی سامنا رہتا ہے اور سب سے بڑھ کا جینیس طلباء اپنی تعلیمی ڈگریوں کے مطابق جب نوکریاں اور اچھے سیلری پیکیجز لینے سے محروم رہتے ہیں تو وہ بیرون ملک کی قومیت لینے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ رجحان پاکستان سے باہر ذہانت کے اخراج (Brain Drain) کا باعث بنتا ہے۔ اس میں کچھ انتہائی غیرمعمولی ذہانت کے حامل افراد بھی شامل ہوتے ہیں، جس کی ایک بڑی مثال محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جو پاکستان میں آ کر "ایٹم بم” کی تخلیق کرنے سے پہلے ہالینڈ میں مقیم تھے۔
ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کرنے والے ایسے تمام افراد جن کو "سمندر پار پاکستانی” کہا جاتا ہے، ان کی مہارت اور ذہانت کے اخراج کو روکنے کے دو ہی طریقے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ ایسے نابغہ روزگار افراد کو پرکشش مراعات دے کر واپس پاکستان لایا جائے اور یا پھر وہ باہر کے ممالک میں بھی مقیم رہیں تو انہیں ایک ایسا "پلیٹ فارم” میسر کرنے کا احتمام کیا جائے کہ ان اوورسیز پاکستانیوں کی صلاحیتوں، فن اور ذہانت کو یکجا کر کے اس سے مستفید ہوا جا سکے۔ اس کی کچھ عمدہ مثالیں پاکستان کے بڑے شہروں مثلا لاہور، اسلام آباد اور کراچی وغیرہ میں قائم "آرٹ کونسل” کے ادارے ہیں یا اس کی ایک اور اعلی مثال لاہور کا "پاک ٹی ہاؤس” ہے، جہاں بڑے بڑے نامور ادیب، دانشور اور شعراء وغیرہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ ماضی میں پاک ٹی ہاؤس جو پہلی بار 1940 کو قائم ہوا اسے "انڈیا ٹی ہاؤس” کہا جاتا تھا لیکن پھر 1950 کے اوائل میں اس کا نام تبدیل کر کے”پاک ٹی ہاؤس‘‘ کر دیا گیا اور اْس وقت سے لے کر اب تک یہ پاک ٹی ہاؤس کے نام سے ہی معروف ہے جس نے فیض احمد فیض، اے حمید، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین جیسے بڑے ناموں کو جنم دیا۔
دنیا کے تمام ممالک میں سمندر پار پاکستانیوں کے تعلیمی اور علمی معاملات اور مسائل یا ان کی ذہنی صلاحیتوں کو مجتمع کرنے اور فروغ دینے کا فریضہ اس ملک میں قائم پاکستانی سفارت خانے انجام دیتے ہیں۔ اس کا میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے۔ سنہ 2001ء میں انگلینڈ سے شائع ہونے والی میری انگریزی کی کتاب "منفی قوت کا استعمال” (Use of Negative Force) کو لندن میں پاکستانی سفارت خانہ نے سپانسر اور شائع کیا۔ اس وقت پاکستان کی ہائی کمشنر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔ اس کتاب کی لانچ ہاوس آف کامنز (British Parliament) میں ہوئی جس کی صدارت برٹش ممبر پارلیمنٹ چوہدری محمد سرور نے کی اور اس تقریب کی مہمان خصوصی خود ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔ اس وقت دنیا بھر میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ 17لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ دبئی ایک "میٹروپولیٹن سٹی” ہے جہاں روزانہ درجنوں کاروباری اور تعلیمی پروگرامز منعقد ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیئے پورے متحدہ عرب امارات میں کوئی ایسا علمی پلیٹ فارم یا ادارہ موجود نہیں ہے جہاں عام سمندر پار پاکستانیوں اور ایسے ذہین افراد کو اکٹھا کیا جا سکے جو وہاں جمع ہو کر پاکستانی ثقافت، زبان و ادب، ملکی مسائل اور ان کے حل پر بات کر سکیں یا وہاں جمع ہو کر مختلف علمی موضوعات پر بحث و مباحثہ، سیمینارز اور کانفرنسز وغیرہ کا انعقاد کر سکیں، جبکہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کے کئی ایسے غیر منافع بخش ادارے اور ذہنی تنظیمیں (intellectual Organizations) عجمان، شارجہ اور دبئی میں موجود ہیں جو انہی خطوط پر کام کر رہی ہیں۔
اگرچہ دبئی میں "پاکستان ایسوسی ایشن دبئی” (PAD) اور شارجہ میں پاکستان سوشل سنٹر شارجہ (PSCS) موجود ہیں، لیکن ان کے کام کی نوعیت مختلف ہے جو زیادہ تر صرف سوشل تقاریب منعقد کرتے ہیں اور ان کا دانش اور علمی آگاہی کے فروغ (Development of Wisdom and Educational Awareness) سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہاں تعلیمی علماء اور دانشوروں کی کوئی ایسی ٹیم نہیں ہے جو حکومت یا پاکستانی سفارت خانہ کو مختلف موضوعات پر خاکہ جات، سمریاں یا فزیبلٹی رپورٹس وغیرہ تیار کر کے دے سکے، حالانکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو ایسے نابغہ اور جنئنئس افراد کی اشد ضرورت ہے جو ارباب اختیار کی ہر میدان میں ترقی کے لیئے رہنمائی کر سکیں۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں میں ذہانت کا ہرگز فقدان نہیں ہے۔ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں اعلی پائے کے شعراء، ادیب اور محققین موجود مگر ان کے پاس نہ کوئی پلیٹ فارم ہے اور نہ انہیں کوئی آرگنائز کرنے والی ایسی شخصیت ہے کہ ایسے معتبر اور قیمتی پاکستانیوں کی ذہانت سے ملک و قوم کے لیئے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ میں ان سطور کے ذریعے امارات میں تعینات پاکستانی سفیر محترم فیصل نیاز ترمذی صاحب سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ کہ وہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیئے خصوصی طور پر غور کریں اور ایک ایسا رفاعی اور غیر منافع بخش ادارہ قائم کرنے کے لیئے سرکاری کھاتے سے فنڈز فراہم کریں جس سے اس تجویز کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ذہانت و مہارت سے استفادہ کرنے کا یہ ایک انتہائی مستحسن قدم ہو گا!
اس منصوبے کو کوئی بھی مناسب اور معقول نام دیا جا سکتا ہے جیسا کہ "پاکستان سمندر پار تھنک ٹینک” یا "پاک وذڈم ہاو’س” (PAK WISDOM HOUSE) وغیرہ۔ بہرکیف نام میں کیا رکھا ہے۔
محترم سفیر پاکستان ایک علم دوست شخصیت ہیں اور امید ہے کہ وہ اس تجویز کو ضرور اہمیت دیں گے۔ ساری اہمیت نیت اور کام کی ہے۔ یہ اقدام ایک ایسی بنیاد ہو گی جو سمندر پار پاکستانیوں کے "ٹیلنٹ” کو استعمال کر کے پاکستان کے لیئے کسی بھی تعلیمی، مذہبی اور سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہونے میں اہم کردار ادا سکتی ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |