چھوٹا بڑا پچیس روپے
نادان ادھاری مہاجر میرٹھی جو آج کل بھڑاس چور ”اہی“ صاحب کے چور ”اہے“ پر صبح شام جبینِ نیاز جھکا کر اُن سے فیضِ عام پا رہے ہیں، انہوں نے کرپشن کے خلاف جس علم بغاوت کو بلند کیا ہے وہ پھریرا آب و تاب سے لہرا رہا ہے اور غریب کا بال بال جیل میں جا رہا ہے۔ موصوف اپنے وقتوں میں خود محکمہ ریلوے میں گیارہویں سکیل کے ہیڈ کلرک تھے اور محکمے کی جانب سے مفت سفر کی سہولت بھی میسر تھی اس لئے اُس سہولت کا نہ صرف خود فائدہ اٹھاتے رہے بلکہ اپنے دوستوں کو بھی نوازتے رہے تاوقتیکہ ایک دن کسی اسٹیشن پر اپنے ہم سفر دوست کے ساتھ جیب تراشی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ آپ نے تھانے میں رو رو کر قسمیں کھا کر یقین دلانے کی کوشش کی کہ میرے ہاتھ بالکل صاف ہیں مگر اُس بد بخت دھوکے باز اور غدار دوست نے سلطانی گواہ بنتے ہوئے صاف بتا دیا کہ ہمارے نیٹ ورک کے سرغنہ قبلہ نادان ادھاری مہاجر میرٹھی ہیں جن کو ہر کامیاب واردات سے ساٹھ فیصد حصہ ادا کیا جاتا ہے۔ اس حادثہ جانکاہ نے ایک طرف تو آپ کی موٹی سی نازک کمر توڑ کے رکھ دی اور دوسری طرف محکمے نے بھی آپ کو برخاست کر کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔
آپ کی زندگی پر اس حادثے کا ایسا مثبت اثر پڑا کہ جہاں منفی سرگرمی دیکھتے ہیں وہیں ”اب راج کرے گی خلق خدا“ کا نعرہ مستانہ لگا کر بساط الٹ دیتے ہیں۔ اب موصوف ساٹھ کے پیٹے میں ہیں اس لئے باتیں کم اور گالیاں زیادہ دیتے ہیں جو ”حکماء“ کے نزدیک ”خون میں غیرت مند جراثیم کی مقدار زیادہ ہونے کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ نچلے طبقات کے کرپٹ انسانوں کو پکڑ کر مجمع لگا لینا اور بھرے مجمع میں سرِ عام اُس کی کرپشن کو بے نقاب کرنا سب سے بڑی نیکی اور نجاتِ اخروی کا سبب سمجھتے ہیں۔ ان دنوں سفر کم کرتے ہیں مگر پچھلے ماہ اپنے کسی رشتہ دار کے پوتے کی رسمِ ختنہ میں شرکت کے لئے جانا پڑ گیا تو یہ سوچ کر ہول پڑ گئے کہ وہاں صرف ٹرین کے ذریعے ہی جانا ممکن ہے بس سے سفر نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اسٹیشن بھی وہی جہاں آپ بمع اپنے ہم سفر دوست کے جیب تراشی کرتے ہوئے دھر لیے گئے تھے اور وہ آپ کا آخری سفرِ ریل ثابت ہوا تھا۔ پہلے تو بہت ٹالا کہ نہ جانا پڑے جس کے لئے کبھی اختلاج قلب کا بہانہ تراشا تو کبھی پیچش کا عذر لنگ پیش کیا مگر اُن عزیز صاحب کے آگے ایک نہ چلی اور چار و ناچار جانا پڑا۔
اس سفر کے دوران کیونکہ آپ کے ہمراہ خاندان کا کوئی بھی فرد ہمرکاب نہیں تھا اس لئے تمام راستے یہی سوچتے رہے کہ اگر اُس اسٹیشن پر کسی نے پہچان لیا تو کیا جواب دوں گا۔ اس اندیشے کو زائل کرنے اور لوگوں کے ممکنہ سوالات سے بچنے کے لئے بار بار واش روم جاکر غور و خوض کرتے رہے کیونکہ اُن کا عقیدہ تھا کہ اچھے خیالات اور سوچ ہمیشہ ٹوائلٹ میں ہی نازل ہوتی ہے۔ آپ کا یہ پانچواں پھیرا تھا کہ جس میں آپ کے ذہنِ نارسا نے یہ ترکیب سجھائی کہ اسٹیشن سے اترتے ہی منہ ڈھانپ کر خاموشی کے ساتھ باہر نکل جاؤں گا اور جدھر کو منہ آیا چل پڑوں گا۔ اس انتہائی اہم کام سے فارغ ہو کر آپ پر بھوک کا حملہ ہوا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ نے چاول کی دو پلیٹیں بمع چٹنی سلاد ہڑپ کر ڈالیں اور پھر خاموشی سے سو گئے تاوقتیکہ وہ اسٹیشن آ گیا جو آپ کے سفر کی آخری منزل تھی۔ اب جیسے ہی اسٹیشن آیا تو ٹرین سے اترنے اور اپنے آپ کو سنبھالنے میں دو منٹ گزر گئے اور ساتھ ہی ٹرین نے وسل بجا کر آگے کی طرف دھیرے دھیرے سرکنا شروع کر دیا۔ اُس وقت کے عینی شاہدین کے مطابق آپ کے چہرہ مبارک پر بشاشت کے آثار تھے اور کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ کی کوئی علامت چہرہ انور سے ہویدا نہیں تھی۔ آپ متانت اور نفاست کے ساتھ منہ میں بڑبڑاتے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اسٹیشن سے باہر نکلے ہی تھے کہ یکایک تقاضائے اندرونی نے آپ کو جکڑ لیا اور آپ کا چلنا دوبھر ہو گیا۔
آپ نے خوف کی کیفیت کو قابو میں رکھتے ہوئے مشتاق نگاہوں کے ساتھ دائیں بائیں دیکھا تو قریب ہی ”پبلک ٹوائلٹ“ لکھا ہوا نظر آیا جس کے بعد بے تاب آنکھیں چمک اٹھیں۔ آپ عموماً دھیمی چال چلتے ہیں مگر اُس وقت اندرونی تقاضے نے مہمیز کا کام کرتے ہوئے آپ کی چال میں سبک خرامی پیدا کر دی اور یوں آپ کشاں کشاں بھاگتے افق کے ساتھ نوے درجے کا زاویہ بناتے ہوئے سیدھا ٹوائلٹ میں گھس گئے۔ جب آپ حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہو کر باہر نمودار ہوئے تو چہرے سے تناؤ کے آثار بالکل مٹ چکے تھے۔ آپ تقاضا فرمانے کے بعد ہاتھ دھو رہے تھے کہ آپ کی نظر ٹوائلٹ کی دیوار پر آویزاں بورڈ پر جا ٹھہری جس پر لکھا تھا ”چھوٹا بڑا پچیس روپے۔ بحث مت کریں“ ۔ یہ بورڈ دیکھ کر آپ کی رگِ ”اینٹی کرپشن حرکت می آید“ اور آپ نے وہاں جھاڑو لگاتے نوجوان کو اُس کے مفلر سے پکڑ کر خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا، ”کیوں بے! کرپشن کے بے تاج بادشاہ۔ یہ کیا ہے چھوٹا بڑا پچیس روپے۔ بحث مت کریں۔ تیرے باپ کا مال ہے کہ تو جو مانگے ہم دے دیں اور بحث بھی مت کریں“ ۔ اُس پچیس سال کے چھبیس کلو وزنی نوجوان نے جب آپ کی شعلہ بار نظروں میں خون اترا ہوا دیکھا تو سر تا پاؤں کانپنا شروع ہو گیا اور لرزتے ہونٹوں سے بس اتنا کہہ پایا، ”جی وہ میں تو جی ٹرینی ہوں۔ آپ نے جو بھی پوچھنا ہے ٹوائلٹ منیجر سے پوچھیے“ ۔ آپ کا ہاتھ یک دم ڈھیلا پڑ گیا اور اُسے چھوڑ کر اُس ایک چارپائی کے وسیع و عریض آفس میں گھس گئے جہاں ٹوائلٹ منیجر صاحب بدرو صاف کرنے والے بانس پہ جھاڑو چڑھا کر اُسے کپڑے سے باندھ رہے تھے۔
” اچھا تو تم ہو ٹوائلٹ منیجر۔ ساڑھے پانچ فٹ کے کرپٹ انسان“ ۔ اُس نے آپ کو شاید پہچان لیا یا شاید وہ اپنے ہوش میں نہیں تھا اس لئے اُس نے بھی جھاڑو کو غصے سے ایک طرف پھینکتے ہوئے درشت لہجے میں جواب دیا، ”ہاں۔ کہو کیا کہنا ہے؟“
” یہ چھوٹا بڑا پچیس روپے کا کیا معاملہ ہے بھائی۔ اور اوپر سے یہ بھی لکھا ہے بحث مت کریں“ ۔
” ہاں تو اب کیا کریں۔ مہنگائی ہو گئی ہے۔ جھاڑو، کپڑا، بانس، ٹوائلٹ کلینر، بجلی سب مہنگی ہو گئی ہیں تو ہم کیا کریں۔ ریٹ نہ بڑھائیں“ ۔
” ابے! تو مجھے سکھا ریا اے جس نے ساری زندگی پائی پائی کا حساب کریا ہے۔ چلو بڑے کے تو پچیس سمجھ میں آتے ہیں، مگر یہ چھوٹے کے پچیس کس حساب میں ہو گئے۔ یہ پکڑ بیس روپے اور واپس کر ساڑھے سات روپے؟“ ۔ اُس نے بیس کا نوٹ آپ کو واپس لوٹاتے ہوئے کہا ”پورے پچیس ہوں گے سمجھے“ ۔
” کیوں؟“
” میری مرضی“ ، اُس نے مختصر جواب دیا۔ ”تیری مرضی گئی بھاڑ میں۔ مجھے سرکاری ریٹ لسٹ دکھا جس میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن نے تجھے اجازت دی ہو کہ چھوٹا بڑا پچیس روپے“ ۔ سرکاری لسٹ کا نام سُن کر وہ پریشان ہو گیا اور سوچ میں پڑ گیا کہ کیا جواب دوں۔
” مگر اب ہمیں کیا پتہ کہ اندر جانے والا چھوٹا کام دکھا رہا ہے یا بڑا کام۔ ہم نے اس جھنجھٹ اور چخ چخ سے بچنے کے لئے ایک ہی ریٹ لکھ دیا ہے کہ جسے آنا ہے آئے جسے نہیں آنا وہ نہ آئے“ ۔ اس کی بات سُن کر آپے سے باہر ہو گئے اور اچھلتے ہوئے تقریباً چھت سے ٹکراتے ہوئے کہنے لگے، ”نہ تو تیرا کیا خیال ہے ہم جھوٹے لوگ ہیں۔ اور اندر سے جھوٹی خبریں لے کر تیرے تک آتے ہیں جو تو نے یہ فیصلہ کر لیا کہ چھوٹا بڑا پچیس روپے۔ ابے سُن گریڈ بائیس کے ٹوائلٹ منیجر! یہ کرپشن ہے اور میں یہ کرپشن نہیں ہونے دوں گا۔ کیونکہ میرا ماٹو ہے اب راج کرے گی خلقِ خدا۔ سمجھے“ ۔ اُس نے جب نادان ادھاری کے بگڑتے تیور دیکھے تو وہ بھی ٹیڑھا ہو گیا اور اونچے لہجے میں بولا، ”تو پھر تو ہی بتا ہم کیسے کنفرم کریں کہ اس نے اندر جا کر کیا کام دکھایا ہے؟ تو طریقہ بتا دے ہم اُس کو لاگو کر دیتے ہیں“ ۔
” ہونہہ۔ کئی طریقے ہیں۔ کیمرہ لگا دو۔“ ۔
” خدا کا خوف کھاؤ۔ یہ ٹوائلٹ ہے ہوٹل کا کمرہ نہیں“ ۔
” ابے پوری بات تو سُن۔ کیمرہ لگا کر اُس کی ویڈیو آف کردو اور آڈیو آن رہنے دو“
” اچھا۔ پھر؟“
” پھر آڈیو سے آنے والی آوازوں کے آہنگ اور چال ڈھال سے پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ کون سا کام دکھایا جا رہا ہے“ ۔
” میاں جی کوئی آسان طریقہ سمجھاؤ۔ اس میں خرچہ بہت ہے“ ۔
” اچھا تو پھر طریقہ نمبر دو۔ جب بندہ باہر نکلے تو تمہارا بندہ اندر جا کرقوتِ شامہ ( سونگھنے والی حس) کی مدد سے فوراً معلوم کر سکتا ہے کہ اندر کون سی واردات کی گئی ہے“ ۔
” میاں جی! آپ کا مشورہ تو معقول ہے مگر اس میں مجھے ہر وقت ایک بندہ اس کام کے لئے رکھنا پڑے گا جس سے میرا بجٹ آؤٹ ہو جائے گا“ ۔
” اوکے۔ تو سنو طریقہ نمبر تین۔ سٹاپ واچ لے لو۔ جونہی بندہ اندر جائے تو سٹاپ واچ آن کرلو۔ اگر پانچ منٹ میں بندہ باہر آ جائے تو سمجھو چھوٹا کام۔ اگر پانچ سے اوپر ٹائم لگائے تو سمجھو اس نے بڑا کام دکھایا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے کہ اس میں کرپشن کے چانس زیرو پرسنٹ بھی نہیں ہیں“ ۔
” اس میں بھی ہیں کرپشن کے چانس“
” وہ کیسے؟“
” اب اگر کوئی منجھا ہوا کھلاڑی پانچ منٹ میں دونوں کام دکھا کر باہر آ گیا تو مجھے تو ہو گیا نا نقصان۔ اب میں کیسے ثابت کروں گا کہ اُس نے اندر جاکر کتنے والا کام کیا ہے“ ۔
” ہونہہ۔ تو پھر اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے بینیفٹ آف ڈاؤٹ“ ۔
” کیا مطلب؟“
” بھئی کرکٹ میں جب باؤلر ایل بی ڈبلیو کی اپیل کرتا ہے تو کئی بار ایمپائر بیٹسمین کو بینیفٹ آف ڈاؤٹ دے کر ناٹ آؤٹ قرار دیتا ہے۔ تمہیں بھی یہاں کسٹمر کو بینیفٹ آف ڈاؤٹ دینا پڑے گا۔ جیسے کہ مجھے“ ۔
” چل اوئے۔ دے پچیس روپے اور نکل یہاں سے۔ بڑا آیا بینیفٹ آف ڈاؤٹ کا بچہ“
اُس نے گریبان سے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے نادان ادھاری کو جب باہر نکالا تو آپ نے شور کر دیا جس کی وجہ سے بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر اُس ”ٹوائلٹ منیجر“ نے آپ کو چھوڑ دیا مگر اب بازی نادان ادھاری کے حق میں پلٹ گئی اور آپ نے ایک کہنہ مشق مقرر اور لیڈر کی طرح مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ”حضرات گرامی اور کوچہ نادم کے غیور باسیو! آج میں نے ایک لمبے عرصے بعد آپ کے اسٹیشن کا دورہ کیا اور آتے ہی اسٹیشن کے بالکل پاس“ پبلک ٹوائلٹ ”کے“ ٹوائلٹ منیجر ”کو کرپشن کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ لوگ حیران ہو کر کہتے ہیں کہ فلاں عمارت کرپشن کا گڑھ ہے اور فلاں بندہ کرپشن کا بے تاج بادشاہ۔ ارے سنو! کرپشن کا گڑھ تو یہ کھلا ہے اسٹیشن کے پاس جہاں یہ“ ٹوائلٹ منیجر ”نام کی مخلوق کرپشن کا بے تاج بادشاہ بنے لوگوں کی جیب پر ڈاکا ڈال رہا ہے“ ۔ جیسے ہی جیب پر ڈاکا ڈالنے کا بولا تو مجمع عام سے فوراً ایک شخص نے پکارتے ہوئے کہا، ”ارے تو وہ نہیں ہے جس نے آج سے کئی سال پہلے ایک بندے کے ساتھ میری جیب پر ڈاکا ڈالا تھا۔ سچ مجھے تو اب یاد آیا۔ یہ تو وہی ہے نادان ادھاری جیب تراش۔ ٹھہر تیری تو۔“ یہ کہہ کر وہ بھلے مانس نادان ادھاری کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھا اور قریب تھا کہ اُس کے ہاتھ اُن کے گریبان تک پہنچ جاتے مگر نادان ادھاری نے ہرن کی سی جست لگاتے ہوئے وہاں سے دڑکی لگائی اور ٹوائلٹ میں گھس کر اندر سے کنڈی لگا لی۔ آپ کئی گھنٹے تک ٹوائلٹ کے اندر دروازے میں بنے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے خارجہ امور کا جائزہ لیتے رہے تاوقتیکہ ایک گھنٹے بعد مجمع عام وہاں سے چھٹا اور آپ ”وکٹری“ کا نشان بناتے ہوئے ٹوائلٹ سے باہر تشریف لائے۔ ”ہاں بھئی! اب تو کیا چاہتا ہے؟“ ، نادان ادھاری نے ٹوائلٹ منیجر سے پوچھا۔ ”جی آپ کے ہو گئے چار سو پچیس روپے۔ وہ دیں اور جائیں“ ۔
” اگر میں ادا نہ کر سکوں تو؟“
” تو یہ لیجیے کپڑا اور وہ رہا گندا بورڈ اُس کی کیجیے صفائی“
” تو کیا پھر حساب برابر ہو جائے گا؟“
” ہاں جی۔ بال برابر“
” لاؤ پھر کپڑا۔ ہم بھی کسی کا حساب رکھنے والے نہیں ہاں۔ جو بھی کھاتہ ہو جتنا بھی کھاتہ ہو موقع پر ادا کر کے جاتے ہیں“ ۔ یہ کہہ کر اُس بورڈ کی صفائی میں جت گئے جس پر لکھا تھا ”چھوٹا بڑا پچیس روپے۔ بحث مت کریں“ ۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |