مختصر جائزہ ، مقبول ذکی مقبول
فقیر میاں اِم٘داد حُسین سرائی لیکھی ( لیّہ )
بلاشُبہ مقبول ذکی مقبول اِسمِ بَامُسمٰی شخصیت ہیں ۔ حقیقتاً صحرائے تھل وسیب منکیرہ ( بھکر ) میں اپنے پُر خلوص جذبوں ، علم و ادبی لگاوٹ سے علم و ادب کے دیپ جلائے ہوئے ہیں ۔ جو صحرائے تھل وسیب میں کنول کے پھول کی مانند ہیں ،
بقولِ شاعر :
یہ کہاں ضروری ہے ، چراغ ہو روشن
اِک دیئے کا جلنا بھی موت ہے اندھیرے کی
راقم آثم حقیر فقیر کا تعارف بھی مقبول ذکی مقبول سے ادبی محافل میں ہوا تھا یہ بات غالباً 2018ء کی ہے ، یوں سلسلہِ رفاقت جاری و ساری ہے ۔ مقبول ذکی مقبول کی پیدائش یکم جنوری 1977ء کنال کالونی کواٹر ضلع لیّہ شہر میں ہوئی تھی ۔ آپ کے والد اقبال حُسین ( مرحوم ) جو اِن دِنوں محکمہ کنال لیّہ میں ملازمت کرتے تھے ۔ آپ کو علم و ادب سے لگاؤ بچپن سے ہی ہے ۔ رثائی شاعری سے لگاوٹ و اُنسیت قابلِ داد ہے ۔ ادبی و علمی ذوق جنونی ایمانی حد تک ہے ۔ آپ 2005ء سے باقاعدہ طور پر شاعری میں طبع آزمائی فرمارہے ہیں ۔ ضلع بھکر کے کہنہ مُشق ُبزرگ شاعر اُستاذ نذیر احمد نذیر ڈھالہ خیلوی سے شاعری میں اصلاح لیتے ہیں ، ایک مرتبہ ان کے درِ اقدس پر شرفِ ُملاقات بھی مقبول ذکی مقبول کی وساطت سے ہوئی ۔
مقبول ذکی سرائیکی ، اُردُو اور پنجابی زبان میں طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ آپ کے کلام میں سادہ بیانی ، عمدہ منظر نگاری ، وارداتِ قلبی ، انتہائی متحرک پہلو ہیں صحت ، سچے خیالات ، بے پناہ عقیدت مندی کا اظہار واضح جھلکتا ہے ۔میدانِ نثر میں بھی اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔ غالباً 2018ء میں مقبول کے توسط سے زاہد اقبال بھیل کی بھیل سنگت کی طرف سے راقم آثم کی علمی الو ادبی و تاریخی خدمات کے ضمن میں دستار بندی کی گئی تھی ، ذکی سے وہ بڑی حسین یادگار لمبی نشست رہی ، پروگرام ہمارے فقیر خانے لیّہ والدِ بزرگوار محقق و مورخ تاریخ لیّہ و سندھ حکیم فقیر میاں الہٰی بخش سرائی لیکھی مغفور پر ہوا جس میں ، شاعر و ادیب پروفیسر عاصم بخاری ( میانوالی ) آپ کا پسرِ رشید ، پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین ، شمشاد سرائی ، شیخ اقبال حسین دانش ، نعمان اشتیاق ، احتشام عباس مہار ، اور دیگر دوستوں نے شمولیت کی تھی ۔ آپ ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں ، آپ کی پہلی کتاب ٫٫ سجدہ ،، 21 مئی 2017ء میں 172 صحفات پر مبنی ، آرٹ لینڈ چوک اعظم ( لیّہ ) سے شائع کی تھی ۔ جو سرائیکی زبان میں رثائی ادب پر مشتمل ہے ۔جس میں ساری رثائی شاعری ہے ۔ آپ کی دوسری کتاب اُردو میں ٫٫ مُنتہائے فِکر ،، جو 7 اگست 2020ء میں آرٹ لینڈ چوک اعظم ( لیّہ ) سے شائع ہوئی ، اس کتاب میں نہایت شاندار اُردُو شاعری پڑھنے کو ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ یکے بعد دیگرے بھی چند شاہکار زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے جن کی تعداد گیارہ ہے ۔
ریحانہ بتول کی کتاب ٫٫ مقبول ذکی مقبول کی ادبی مقبولیت ،، ( مشاہیر کی نظر میں ) 370 صحفات پر مشتمل آپ پر نئی تالیف ۔ شائع ہو کر علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہے ۔ راقم آثم ضمناً یہاں عرض کرتا ہے کہ ملک دوست محمد کھوکھر ( مرحوم ) کی کتاب ٫٫ تاریخِ ریاستِ منکیرہ ،، پڑھنے کو مُرشد سید حسن رضا کاظمی مغفور رح دری پاک جمن شاہ لیّہ والوں کو دی تھی ، جس پر آپ نے کافی نادر خواہش فرمائی تھی اور مصنّف کو ِملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ یہ بات ہے غالباً 2017 ء کی ۔ راقم آثم فقیر نے ست بسم اللّٰہ کی اور سید حسن رضا کاظمی مغفور رح کی معیت میں جن میں سید عزادار حسین کاظمی ، کوٹلہ حاجی شاہ لیّہ ، چند احباب کے نام یاد نہیں حافظہ سے محو ہو گئے ، نوجوان گردیزی اور آپ کا ملازم صفدر حسین بڈا کاظمی چوک لیّہ والے بمعہ خیمے و دیگر سامان قلعہ منکیرہ پر پہنچ گئے ۔ رات وہی تاریخی قلعہ منکیرہ پر بسر کی قلعہ پر اولیاء اللّٰہ ، حضرت سید نور قلندر رح کا مقبرہ ہے اور آپ کی اُولاد وہاں آج بھی آباد ہے اُنہی کے فقیری مَچ پر رات بسری کی ، جو سید حسن رضا کاظمی کے عقیدت مندوں سے تھے ۔ صُبح ملک دوست محمد کھوکھر ( مرحوم ) کے گھر ملنے گئے آپ کافی ضعیف ہوچکے تھے لیکن کافی نیاز مندی و عقیدت سے پیش آئیں ، آپ کا چھوٹا بیٹا محمد اسحٰق ملا ،جو نوئے کی دہائی میں لیّہ ہمارے فقیر خانے والدِ بزرگوار پر رہتا رہا اور ٹیکنکل کالج میں پڑھتا رہا تھا ۔ بڑا بیٹا شاعر و ادیب اُستاذ اشفاق حسین شجر نہ مل سکا ، ملک دوست محمد کھوکھر جب 1988ء میں کتاب تاریخِ ریاستِ منکیرہ لکھ رہیے تھے تب میرے والد محقق ، مُورخ ، اِدیب ، نقاد ، بزرگوار فقیر میاں الہٰی بخش سرائی لیکھی مغفور رح کو ملنے آتے تھے تب بھی مُلاقاتیں رہتی تھیں ۔ دوست محمد کھوکھر ( مرحوم ) کے گھر سے ہم سب قلعہ منکیرہ پر قبلہء سید حسن رضا کاظمی مغفور جمن شاہ والوں کی گاڑی میں پاکستان کے تاریخی قلعہ منکیرہ پر جا پہنچے وہاں کافی گفتگو ہوئی شاہ جی کا خیال تھا کے ٫٫ من و سلوی ،، اسی قوم پر گرتا تھا یہی بنی اسرائیل ہے ۔ ملک دوست محمد کا خیال ان کے برعکس تھا ۔ قلعے منکیرہ میں ایک کنواں آج بھی موجود ہے کہاں جاتا ہے کہ درجن سے زائد کنویں قلعے منکیرے کے باہر اور اندر موجود تھے جو اب ختم ہو گئے ہیں ، قلعہ کی شروع داخلی جانب مشرقی جانب ایک مندر مہابیر کا کتبہ دروازہ پر آج بھی نصب ہے ، اور شمالی سَمت مسجد مہابت خان موجود ہے جس کے ایک مینار کو راجہ رنجیت سنگھ نے لوہے کے گولے سے شہید کیا تھا وہ گولہ کہا جاتا ہے کے تھانہ منکیرہ میں موجود ہے ۔ اب تو مسجد ضعیف ہونے کی وجہ سے اس کو شہید کردیا ہے اور بقولِ مقبول ذکی کہ اب وہاں نئی مسجد تعمیر کردی گئی ہے ، ویسے قلعہ میں چھوٹے ، بڑے کئی کنکریٹ کے پختہ گولے بکھرے پڑے ہیں راقم ایک ، دو گولہ وہاں سے تھل میوزیم کے لئے لے آیا چھوٹے گولے کا وزن پانچ کلو سے زائد ہے اور بڑے گولے کا وزن چھبیس ، 26 کلو سے زائد ہے جو راجہ رنجیت سنگھ نے منجنیق توپ سے مارے تھے ، جنوبی سمت نواب سر بلند خان کی چار دیواری میں قبر موجود ہے جس میں اور بھی چند قبور ہیں اور قلعہ کے بیرونی جانب قبرستان اور اسٹیڈیم ہے یہ قلعہ نواب سر بلند خان نے 1704ء کو بنوایا تھا ، پاکستان کے معروف قلعوں میں آج بھی اس کا نام آتا ہے ، کہا جاتا ہے کے انگریزوں نے اس مضبوط قلعے کی خوبصورتی کو ماند کیا قلعے منکیرے کہ بیرونی پتلی ، نانک شاہی اینٹیں اکھاڑ کر سڑکیں بنوا دی قلعے میں آج بھی وسیب کے مشہور درخت پیلوں (جال) اور کھگل موجود ہیں ، قلعے منکیرے کی مٹی کلر زدہ ہے ۔ مقبول ذکی مقبول کتاب ٫٫ یہ میرا بھکر ،، کا ایک شعر یاد آگیا ہے جو قلعہ منکیرہ کے متعلق ہے ، ملاحظہ فرمائیں
قلعہ ایک جس میں آج بھی ہے
تاریخی ہے شہر ترا مقبول ذکی
آخر پر یہی دُعائے فقیر حقیر ہے کہ مالکِ کائنات بحقِ چہاردہ معصومین علیہ السّلام کے زوار مقبول ذکی مقبول کے رزقِ علم و حلم میں برکت و وسعت و عظمت و رفعتِ دوام عطاء فرمائے ! تاکہ یہ صحرائے تھل کا دیپ سدا ٹمٹماتا رہے آمین ثم آمین !
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |