پشاور کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کا منصوبہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
خیبر پختونخوا کا پشاور برصغیر کا وہ تاریخی شہر ہے جس کی گلیاں، بازار، دروازے اور قلعے ہزاروں برس کی تہذیبی یادیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ گندھارا تہذیب سے لے کر مغل دور تک یہ شہر تجارت، ثقافت اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ وقت کے ساتھ شہر کی آبادی بڑھی، مسائل بڑھتے گئے اور وہ خوبصورتی جس پر کبھی پشاور کو فخر تھا، دھیرے دھیرے کمزور پڑ گئی۔ یہی پس منظر آج کے اس نئے ترقیاتی سفر کو زیادہ معنی خیز بناتا ہے۔
حکومتِ خیبر پختونخوا کی جانب سے پشاور بیوٹیفیکیشن منصوبہ اسی تاریخی تسلسل کا تازہ باب ہے۔ صوبائی دارالحکومت کی وہی شان واپس لانے کی کوشش جسے بدلتے وقت نے دھندلا دیا تھا۔ وزیر اعلیٰ محمد سہیل آفریدی نے اس منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے جو نکات سامنے رکھے، وہ نہ صرف ایک حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ عوامی توقعات کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔
پشاور کی رونقیں ہمیشہ سے شاہراہوں، قلعوں اور بازاروں کے گرد گھومتی رہی ہیں۔ دلا کٹہ، خیبر پاس، قصہ خوانی بازار، چترالی بازار، اندرون شہر اور پرانا شہر وہ شناختیں ہیں جنہوں نے پشاور کو دوسرے شہروں سے منفرد بنایا۔ مگر پچھلی دو دہائیوں میں ٹریفک کا دباؤ بڑھا، انفراسٹرکچر کمزور ہوا اور شہر کی ہریالی سکڑ کر چند جگہوں تک محدود رہ گئی۔ اس کے باوجود شہری اپنے شہر کی قدیم شان لوٹتے دیکھنے کے خواہش مند رہے۔
نیا منصوبہ اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ اس میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ ترقی کا مقصد صرف سڑکیں بنانا ہی نہیں بلکہ شہری سہولیات، ماحول اور ثقافتی اظہار کو بھی ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہے۔
شہری انفراسٹرکچر کی بحالی پشاور کی معاشی سرگرمیوں کو نئی رفتار دے سکتی ہے۔
جدید اسٹریٹ لائٹس رات کے وقت شہر کو محفوظ اور قابلِ سفر بنائیں گی۔
گرین ایریاز کی ترقی شہر کے ماحول اور فضا میں خوشگوار تبدیلی لائے گی۔
ٹریفک مینجمنٹ کی حکمت عملی روزانہ لاکھوں مسافروں کے سفر کو آسان بنائے گی۔
ثقافتی مجسمے اور آرٹ ورک اس تاریخی شہر کی پہچان کو ایک نئی صورت دیں گے۔
رنگ روڈ، جمرود روڈ اور جی ٹی روڈ کی بحالی تجارتی راستوں کو بہتر بنا کر شہر کی ترقی کو مزید مضبوط کرے گی۔
افتتاحی خطاب میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ سہیل آفریدی نے واضح کیا کہ صوبائی پالیسیوں کا مرکز عوام ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ پشاور صوبے کا چہرہ ہے اور اسے زیادہ خوبصورت بنانا سب کی ذمہ داری ہے۔ شہر کے لیے جامع ماسٹر پلان کا اعلان بھی دیرپا ترقی کی طرف اہم قدم سمجھا جا سکتا ہے۔
اگرچہ پشاور مختلف ترقیاتی ادوار سے گزرا ہے، مگر ماضی کی منصوبہ بندی اکثر جزوی رہی۔ اس نئے منصوبے کی خاص بات اس کا جامع اور مربوط ہونا ہے۔ اگر یہ اقدامات مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رہے تو پشاور کا منظر نامہ واقعی بدل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عوامی نمائندوں کی مشاورت اور شہر کی ثقافتی شناخت کو سامنے رکھ کر ترقی کرنا اس منصوبے کو زیادہ قابلِ قبول بنا سکتا ہے۔
پشاور بیوٹیفیکیشن منصوبہ صرف شہر کی ظاہری تبدیلی ہی نہیں بلکہ اس کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کی طرف ایک سنجیدہ کوشش بھی ہے۔ یہ شہر ہمیشہ تاریخ، تجارت اور ثقافت کا سنگم رہا ہے۔ اگر اس منصوبے پر تسلسل کے ساتھ کام ہوتا رہا تو پشاور نہ صرف اپنا ماضی لوٹا سکتا ہے بلکہ ایک جدید، صاف اور دلکش دارالحکومت کے طور پر بھی سامنے آ سکتا ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |