دہشت گردی کا افغان اور بھارتی گٹھ جوڑ
اسلام آباد کی ضلع کچہریوں پر دہشت گردانہ حملے کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ، "ہم حالت جنگ میں ہیں۔” میرے خیال میں ہم واقعی سرحدوں پر نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ بھارت بھیگی بلی بنا ہوا ہے اور اس تاک میں بیٹھا ہے کہ وہ پاکستان کو افغانستان سے جنگ میں دھکیل کر اور پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلا کر یا کوئی موقعہ ڈھونڈ کر پاکستان پر جنگی وار کر کے حساب چکا لے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ، "ایں خیال است و محال است و جنوں۔” بلی کو ہمیشہ چھیچھڑوں کے خواب آتے ہیں۔ بھارت کو پاکستان سے بدلہ چکانے کا موقعہ کبھی نہیں ملے گا۔ پاک افغان مذاکرات کے پہلے دونوں ادوار خاطر خواہ طور پر کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ ترکیہ استنبول کے پہلے دو ادوار میں پاکستان نے پوری کوشش کی کہ اپنے ہمسائے اور برادر اسلامی ملک کے ساتھ سرحدی جھڑپیں ختم کر کے افغانستان سے دوستانہ مراسم کو بحال کیا جائے لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کی ہٹ دھرمی نے پاکستان کی اس کوشش کو بارآور نہ ہونے دیا۔ ان مذاکرات میں پاکستان کا ایک ہی بنیادی موقف تھا کہ افغان حکومت اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیئے استعمال نہ ہونے دے۔ مذاکرات میں موجود افغان نمائندوں نے پاکستان کے اس جائز موقف کو تسلیم بھی کیا مگر ہر بار کابل میں برسراقتدار طالبانی حکومت نے اسے مسترد کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ استنبول میں 6 نومبر کو ہونے والا مذاکرات کا تیسرا دور بھی کسی مثبت اور صلح جو نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا۔
مذاکرات کے دوران ہی افغان طالبان کی طرف سے پراکسی وار اور اسلام آباد کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی مبینہ دھمکیاں دی گئی تھیں۔ برادر مسلم اسلامی ممالک ترکی اور قطر کے تعاون سے ہونے والے ان مذاکرات سے قبل اکتوبر میں ایک طرف افغان حکومت پاکستان سے مذاکرات کا ڈول ڈال رہی تھی تو دوسری طرف افغان وزیر خارجہ امیر متقی بھارت کا ایک ایسے وقت میں دورہ کر رہے تھے جب افغانستان میں پاکستان کی طرف سے فضائی بمباری کی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ کہتے ہیں کہ، "دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔” ظاہر ہے کہ پاک افغان کشیدگی کے دوران افغان حکومت کو بھارت کی طرف سے جو شہ ملی اور جس فوجی و مالی تعاون کی کابل حکومت کو بھارت نے یقین دہانی کروائی اس کا اثر مذاکرات کے ان تینوں ادوار پر پڑا۔
اگر اب افغان حکومت اسلام آباد اور کاکول پر دہشت گردانہ حملوں کی معاونت اور پشت پناہی سے انکار کرے یا بھارت بھی اس الزام سے بھاگنے کی کوشش کرے تو کرے لیکن حقائق صاف بتا رہے ہیں کہ بھارت پاکستان سے انتقام لینے کی آگ میں جل رہا ہے اور ابھی وہ پاکستان پر براہ راست حملہ تو نہیں کر سکتا لیکن وہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیئے افغانستان کو استعمال کرنے کی سازش کر رہا ہے۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بجا طور پر کہا کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان آرمی یہ جنگ افغان پاکستان بارڈر اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں لڑ رہی ہے، وہ آج اسلام آباد کے ضلع کچہریوں پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کو ایک "ویک اپ کال” کے طور پر لے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ، "یہ پاکستان کی تمام قوم کی جنگ ہے، جس میں پاکستان آرمی روزانہ قربانیاں دے رہی ہے اور لوگوں کو محفوظ محسوس کرا رہی ہے۔ اس ماحول میں کابل کے حکمرانوں سے مزید مذاکرات کرنا اور ان کے کامیاب ہونے کی زیادہ امید رکھنا بے سود ہو گا۔ کابل کے حکمران پاکستان میں دہشت گردی کو روک سکتے ہیں، لیکن اس جنگ کو اسلام آباد تک لانا کابل پیغام واضح کرتا ہے کہ اس کے پیچھے بھارت کا گٹھ جوڑ شامل ہے، جس کا جواب دینے کی پاکستان کے پاس پوری قوت موجود ہے۔
انڈیا کو عقل کے ناخن لینے ہوں گے اور سمجھنا پڑے گا کہ انتقام اور غصے میں عقل کام نہیں کرتی ہے۔ پاک افغان معاملہ پاک بھارت مسئلہ سے بالکل الگ اور یکسر مختلف ہے. میر تقی میر نے کہا تھا: "پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔” افغانستان کو پوری دنیا جانتی ہے کہ وہاں کی حکومتیں ماضی اور حال میں کتنی قابل اعتبار رہی ہیں یا اپنی پوری تاریخ میں افغانستان کے حکمرانوں نے کس قدر دانش مندانہ فیصلے کیئے ہیں۔ ماضی میں افغانستان کے ناقابل شکست رہنے کا بیانیہ بھی بزعم خویش پاکستان نے کھڑا تھا تاکہ روس اور امریکہ کو افغانستان میں نیچا دکھایا جا سکے اور اب اسی بیانیئے کا بھانڈا بھی اہل پاکستان نے بیچ چوراہے پھوڑا ہے کہ یہ دعوی غلط ہے کہ افغانستان کو کوئی فتح نہیں کر سکا اور وہ سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے یعنی جس نے بھی اس پر حملہ کیا وہ نیست و نابود ہو گیا۔ ماضی میں افغانستان پر جن جن حملہ آوروں نے قبضہ کیا اور ان اہل کوہسار کو شکست سے دوچار کیا اب کوئی راز کی بات نہیں رہی ہے۔
کسی بھی ملک سے تسلیم کیئے جانے کی بجائے، دنیا بھر میں مسلسل نظر انداز ہونے والی یہ افغانستان رجیم نا صرف ہمسایہ ممالک کے لئے، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بہت بڑا درد سر ہے. جبکہ پاکستان نہ صرف انڈیا سمیت دنیا بھر میں سفارتی تعلقات رکھتا ہے، بلکہ دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی اکلوتی "ایٹمی پاور” بھی ہے، جس کی افواج دنیا میں اپنا لوہا بھی منوا چکی ہیں. اتنے صبر اور سفارتی و مصالحتی کوششوں میں ناکامی کے بعد اب جبکہ پاکستان کا صبر جواب دے چکا ہے، اور دوست ممالک کی مصالحتی ٹیمیں بھی طالبان کی ہٹ دھرمی کی گواہ ہیں. اور یوں بالآخر پاکستان کے جوابی اقدامات بھارت کے لئے ایسی ہی کسی جسارت کے لیئے کوئی جائز دلیل نہیں ہو سکتے ہیں تو بھارت کو کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے پرہیز کرنا ہو گا. بھارت کو مئی بھی ہرگز نہیں بھولنا چایئے کوئی بھی ایسی مہم جوئیانہ کوشش بھارت اور اس کے حکمرانوں کے لئے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے، جس کے منفی اثرات خطے میں دور دور تک پہنچیں گے.
تاریخ انسانی کی پہلی بڑی سلطنت اڑھائی ہزار سال پہلے ایرانی بادشاہ کوروش اعظم سائرس کی تھی جس کے نقشے میں افغانستان کو مفتوح ہو کر سائرس کی حکومت کا صوبہ دکھایا گیا یے۔ اس کے بعد مقدونیہ کے سکندر اعظم سے لے کر سلیوکس اور دیگر یونانی بادشاہوں نے طویل عرصے تک افغانستان کو غلام بنائے رکھا۔ چندر گپت موریہ اور اس کے جانشینوں کی سلطنت میں موجودہ افغانستان ٹیکسلا اور پاٹلی پتر کے موریہ بادشاہوں کا ایک مفتوحہ علاقہ تھا۔ یہاں تک کہ چند سو سال بعد کے ساسانی بادشاہوں سے لے کر خلفائے راشدین کے دور میں بھی خراسان فتح ہوا اور اموی خلافت قائم ہوئی جس میں سمرقند اور بخارا کے بادشاہوں نے بھی افغانستان پر قبضہ کیئے رکھا۔ حتی کہ گورنر الپتگین اس وقت غزنی کے صوبے پر حکومت کر رہا تھا۔ اس نے خود مختاری کا اعلان کیا تو غزنوی سلطنت قائم ہو گئی۔ الپتگین کے جانشین اور داماد نے لاہور کے ہندو شاہی راجوں سے جنگ چھیڑی تو انہوں نے کابل اور مزار شریف کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ سب علاقے غزنی کی سلطنت کا حصہ تھے۔ محمود غزنوی چہار اطراف فتوحات کا سلسلہ پھیلاتا گیا اور افغانستان تو کیا لاہور تک کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کر لیئے۔ ترکوں کی یہ حکومت موجودہ افغانستان کے علاوہ بھی بہت سے علاقوں پر قابض تھی۔ اسی طرح جو افغانستان کے ناقابل شکست ہونے کا جھوٹ پھیلایا گیا تھا اس پر سلجوق اور ترک قبائل نے بھی حکومت کی جنہوں نے افغانستان اور کابل سے آگے لاہور کو اپنا مرکز بنائے رکھا تھا۔ افغانستان پر قبضہ کرنے والوں میں سلطان غیاث الدین غوری، سمرقند کا امیر تیمور تاتاری، ازبک سلطان شیبانی خان اور فرغانہ کا حکمران ظہیر الدین بابر بھی شامل یے کہ اورنگ زیب عالمگیر تک مغل بادشاہ اس پر حکمرانی کرتے رہے، اور جب مغلوں کا تسلط کمزور پڑا تو ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار نے افغانستان پر تسلط جما لیا۔ جبکہ احمد شاہ ابدالی نے 1747ء میں افغان علاقوں پر حکمرانی کا دعوی کر دیا۔ اس سے پہلے کابل اور احمد شاہ ابدالی کی سلطنت میں ایرانی شہر نیشا پور، موجودہ افغانستان، موجودہ پاکستان اور راجھستان کے کچھ علاقے شامل تھے۔ آخر میں برطانیہ نے بھی افغانستان سے وسیع علاقے چھین لیئے۔
افغانستان کے غیرمفتوحہ ہونے کا یہ وہ جھوٹ ہے جس پر تکیہ کر کے بھارت پاکستان سے بدلہ لینے کا سوچ رہا ہے۔ 1878ء سے 1880ء تک ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں افغانستان کو شکست ہوئی اور پورے افغانستان پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا تھا۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچا گیا کہ اس کے حصے بخرے کر دیئے جائیں اور ہر حصے پر الگ حکمران بنا دیا جائے لیکن پھر امیر عبدالرحمان کو حکمران بنا دیا گیا۔ معاہدے کے تحت کوئٹہ، کرم اور پشین کی وادیاں، سبی، درہ خیبر سمیت بہت سے علاقے برطانوی راج کو دے دیئے گئے۔ افغانستان کے امور خارجہ بھی برطانیہ کے حوالے کر دیئے گئے تھے۔ بدلے میں برطانیہ نے کسی غیر ملکی حملے کی صورت میں افغانستان کی مدد کرنے کی ذمہ داری لی تھی۔
ہندوستان اگر افغانستان کو استعمال کرنے کی سازش اور گٹھ جوڑ کر کے پاکستان پر دوبارہ حملہ کرنے کی تاریخی غلطی کرے گا تو یہ غلطی کرنے سے پہلے اسے افغانستان کی یہ مفتوحہ تاریخ ضرور پڑھنی چایئے۔ اصل تاریخ یہی ہے جو اوپر مختصرا بیان کی گئی ہے۔ افغانستان کو پاکستان کے خلاف کھونٹا بنانے سے پہلے بھارت کو سوچنا چایئے کہ حقیقت یہی ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں بلکہ ان کا غلام رہا ہے۔
Title Photo by Zeeshaan Shabbir

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |