حضرت امام زین العابدین ؑکی ولادت اور حالاتِ زندگی
اہلِ بیتِ اطہارؑ کے چہارم امام، حضرت علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام، جنہیں امام زین العابدین علیہ السلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، تاریخِ اسلام کی ان عظیم اور روشن شخصیات میں سے ہیں جن کی زندگی عبادت، زہد، صبر اور انسان دوستی سے بھرپور تھی۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں روایات میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپؑ کی ولادت ۵ شعبان المعظم ۳۸ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی (بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج ۴۶، ص ۲۴۵)، جبکہ کچھ روایات میں ولادت کی تاریخ ۱۵ جمادی الاول بھی بیان کی گئی ہے (شیعہ کلینڈر duas.mobi اور angelfire.com کے مطابق)۔ سنِ ہجری کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض مآخذ میں ۳۷ ہجری جبکہ بعض میں ۳۸ ہجری درج ہے (نوربخشیہ ماخذ noorbakhshia.com کے مطابق)۔ اگرچہ تاریخی تفصیلات میں فرق ہے، مگر تمام روایات اس بات پر متفق ہیں کہ آپؑ کی ولادت خلافتِ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی۔
آپؑ کے والد گرامی امام حسین علیہ السلام اور والدۂ ماجدہ شہربانو تھیں، جو ایران کے بادشاہ یزدگرد سوم کی دختر تھیں۔ اس لحاظ سے آپؑ کے نسب میں عرب و عجم دونوں کی شرافت جمع تھی۔ آپؑ بچپن ہی سے علم، تقویٰ، بردباری اور خشوع کے پیکر تھے۔ آپؑ نے اپنے نانا امیرالمؤمنین حضرت علیؑ، چچا امام حسنؑ اور والد امام حسینؑ کے ادوارِ مبارک کو پایا۔
واقعۂ کربلا کے وقت آپؑ سخت بیمار تھے، اس لیے جنگ میں شریک نہ ہو سکے، مگر سانحۂ کربلا کے بعد قافلۂ اسیرانِ اہلِ بیتؑ کی قیادت آپؑ ہی نے فرمائی۔ کوفہ اور دمشق کے درباروں میں آپؑ کے خطبات نے ظلم و جبر کے چہرے کو بے نقاب کیا۔ خاص طور پر دربارِ یزید میں دیا گیا آپؑ کا خطبہ تاریخِ اسلام کے سنہری ابواب میں شمار ہوتا ہے، جس نے امت کو بیداری، شجاعت اور بصیرت کا درس دیا۔
امام زین العابدینؑ کی زندگی عبادت و بندگی کا مظہر تھی۔ آپؑ کا لقب “زین العابدین” یعنی عبادت گزاروں کی زینت اور “سجاد” یعنی کثرتِ سجدہ کرنے والا اسی بنا پر مشہور ہوا۔ آپؑ کے سجدوں کے نشانات بدنِ مبارک پر نمایاں تھے، اسی لیے آپؑ کو “ذوالثفنات” بھی کہا جاتا تھا۔ روایت ہے کہ جب آپؑ وضو کرتے تو چہرہ زرد پڑ جاتا اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو بدن لرزنے لگتا، گویا وہ اللہ کے حضور مکمل طور پر فنا ہو جاتے۔
آپؑ کی دعاؤں کا مشہور مجموعہ “صحیفہ سجادیہ” ہے، جو روحانی معرفت، اخلاق، دعا، توکل، شکر اور عدل و انصاف کا خزانہ ہے۔ اسے “زبورِ آلِ محمدؐ” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ “رسالۃ الحقوق” (حقوق نامہ) آپؑ کی ایک ایسی تعلیماتی دستاویز ہے جس میں آپؑ نے والدین، اولاد، استاد، شاگرد، ہمسایہ، دوست اور حتیٰ کہ دشمن کے بھی حقوق بیان فرمائے۔ یہ کتاب انسانی حقوق کے باب میں اسلام کی ایک لازوال رہنمائی ہے۔
امام زین العابدینؑ کی حیاتِ طیبہ کا بڑا حصہ بنی امیہ کے جبر کے زیرِ سایہ گزرا۔ آپؑ نے تلوار کے بجائے دعا، عبادت اور علم کے ذریعے اسلام کے حقیقی پیغام کو زندہ رکھا۔ آپؑ مدینہ میں علمی، دینی اور اخلاقی تربیت کے مرکز کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بہت سے تابعین اور بزرگ علما نے آپؑ سے حدیث و تفسیر کی تعلیم حاصل کی۔
آپؑ کے اخلاق و حلم کی مثالیں بے شمار ہیں۔ دشمنوں سے عفو و درگزر، غلاموں سے شفقت، مسکینوں کی خبرگیری اور رات کے وقت خفیہ طور پر صدقہ دینا آپؑ کا معمول تھا۔ روایت ہے کہ آپؑ اپنے کندھوں پر آٹے کی بوریاں لاد کر محتاجوں کے گھروں تک پہنچاتے اور کسی کو خبر نہ ہونے دیتے۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا وصال ۲۵ محرم ۹۴ یا ۹۵ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپؑ کو جنت البقیع میں اپنے چچا امام حسن مجتبیٰؑ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی صبر، شکر، عبادت، علم اور خدمتِ انسانیت کا درخشاں نمونہ ہے۔ اگرچہ ولادت کی تاریخ میں اختلاف ہے—بعض کے نزدیک ۵ شعبان، بعض کے نزدیک ۱۵ جمادی الاول، اور سنِ ہجری بعض کے نزدیک ۳۷ اور بعض کے نزدیک ۳۸—لیکن تمام روایات اس حقیقت پر متفق ہیں کہ آپؑ کا وجود اہلِ بیتؑ کے نور کا تسلسل اور امت کے لیے ہدایت و تقویٰ کا چراغ تھا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ پر عمل کرنے، ان کے اخلاقِ حسنہ سے روشنی حاصل کرنے، کی توفیق عطا فرمائے آمین
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |