غزہ میں جنگ بندی اور امریکی ویٹو کی تلوار
اقوام متحدہ میں امریکہ نے غزہ میں جاری 2 سالہ جنگ کو ایک بار پھر روکنے سے متعلق قرارداد کو مسترد کر دیا یے۔ ایسا 6 دفعہ ہوا ہے کہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ نے اپنا "ویٹو” کا "نام نہاد” اور "غاصبانہ” حق استعمال کیا ہے۔ اس موقع پر کونسل میں امریکی نمائندہ خاتون نے کہا ہے کہ حماس کو فوری طور پر ہتھیار ڈال کر قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے۔ یہ وہی امریکہ ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو کل تک مشرق وسطی میں امن اور غزہ میں جنگ بندی کے نام پر اہل عرب سے اربوں کھربوں ڈالرز کی انوسٹمنٹ اور اسلحہ ڈیلز کر رہے تھے، اور ساتھ میں قیام امن اور جنگ بندی کی یقین دہانیاں بھی کرا رہے تھے، مگر جونہی جنگی بندی کا موقعہ آیا ہے تو امریکہ نے اس کے بارے قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے۔
سرمایہ داری نظام میں جمہوریت کی بڑی آنت صرف ملکی مفادات کے گرد گھومتی ہے جس میں جتنا مرضی سرمایہ انڈیلتے جاو’ وہ کبھی نہیں بھرتی ہے۔ یوں لگتا ہے امریکی صدر کے گزشتہ خلیجی دورے کا بنیادی مقصد بھی اس اسرائیل کی سلامتی کا تحفظ کرنا تھا جو خطے میں امریکہ کے لیئے "تھانیدار” کا کام کرتا ہے۔ امریکی ویٹو سے جہاں امن کی جدوجہد کو نقصان پہنچا ہے وہاں دیگر عرب ممالک سمیت پوری اسلامی دنیا سے اسرائیلی وجود کو تسلیم کروانے کی نام نہاد امریکی دعووں کی قلعی بھی کھل گئی ہے، جس کے بدلے اسرائیل امریکی سینٹ میں ہمیشہ اپنا غیرمعمولی اثر و رسوخ بڑھاتا رہتا ہے اور جو امریکہ کو آئے دن دل کھول کر سرمایہ بھی فراہم کرتا ہے۔
جب امریکہ نے 18ستمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کے حق کو استعمال کرتے ہوئے اُس قرارداد کو مسترد کر دیا جس میں غزہ میں جنگ بندی، امداد کی فراہمی اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، تو اس وقت امریکہ کی جمہوری روایات اور انسانی حقوق کے بارے سارے دعوے زمین بوس ہو گئے۔ سلامتی کونسل میں امریکہ کی نمائندہ نے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لئے نئی قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل اور حماس کو برابر نہیں سمجھا جا سکتا”۔ اگر فلسطینی اور اسرائیلی قیدی اور دیگر متاثرین برابر نہیں ہیں تو امریکہ کونسے انسانی حقوق کی بنیاد پر کہتا ہے کہ حماس کو فوری طور پر ہتھیار ڈالنے چایئے اور قیدیوں کو رہا کرنا چایئے۔امریکی نمائندہ نے مزید کہا کہ "امریکہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس بھیانک تنازعہ کو ختم کرنے کے لیئے کام جاری رکھے ہوئے ہے”۔ یہ جنگ بندی کی کیسی کاوش ہے کہ ایک طرف امریکہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرتا ہے دوسری طرف یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ وہ جنگ بندی کی کوشش کر رہا ہے؟ اس قرارداد کو سلامتی کونسل کے کُل 15 اراکین میں سے 10 منتخب اراکین نے تیار کیا تھا۔ اس میں حماس اور دیگر گروہوں کے قبضے میں موجود تمام قیدیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا بھی مطالبہ شامل تھا۔ اس قرارداد کو 14 اراکین کی حمایت حاصل ہوئی تھی، مگر مقام افسوس ہے کہ غزہ میں اس تباہ کن جاری جنگ کو سلامتی کونسل کے ذریعے روکنے کی قررداد کو امریکہ نے بے بے دردی سے ویٹو کیا ہے۔
اس پر ایک یورپی سفارت کار نے کہا کہ "امریکیوں کے لئے کچھ نہ کرنا زیادہ آسان ہو گا کیونکہ انھیں اپنی پوزیشن 14 اراکین اور عالمی رائے عامہ کے سامنے واضح نہیں کرنی پڑے گی”۔ اس سفارت کار کا حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ "اس سے فلسطینیوں کو زمینی طور پر بہت زیادہ فائدہ نہیں ملتا، لیکن کم از کم ہم یہ دکھاتے رہتے ہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں”۔
امریکی ویٹو نے اس سے قبل بھی سلامتی کونسل کے باقی 14 اراکین کو مشتعل کیا تھا، جو اسرائیل پر دباؤ ڈالنے میں ناکامی پر بڑھتی ہوئی مایوسی کا اظہار کر رہے تھے تاکہ غزہ کے شہریوں کی مشکلات کا خاتمہ کیا جا سکے۔ حتی کہ امریکی مغربی حلیف سپین، فرانس اور ہالینڈ وغیرہ غزہ میں جنگ بندی کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ سپین نے تو اپنے ملک میں فلسطین کے سفیر کا بھی خیرمقدم کیا۔ جبکہ بعض یورپی ممالک اسرائیل پر تجارتی پابندیاں بھی لگا چکے ہیں۔ یوں تل ابیب پر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اُس جنگ کو روکے جو تنگ آ کر 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
اقوام متحدہ کے شراکتی ماہرین نے امسال اگست میں اس تلخ انسانی المیئے کی تصدیق کی تھی کہ غزہ کے بعض حصوں میں قحط پڑ چکا ہے، تاہم اسرائیل اس کی تردید کرتا ہے اور الزام لگاتا ہے کہ حماس امداد لوٹ لیتی ہے، حالانکہ خود اسرائیل امدادی جہازوں پر بارہا حملوں کا مرتکب ہوا ہے اور فلسطین کے انفراسٹرکچر اور ہسپتالوں کو بھی ملیا میٹ کر چکا ہے جہاں فلسطینی بچے، بوڑھے اور خواتین زیرعلاج تھیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے الٹا اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کی اس رپورٹ کو بھی متعصب اور گمراہ کن قرار دیا تھا، جس میں اسرائیل پر غزہ میں ’’نسل کشی‘‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
شائد قارئین کو یاد ہو گا کہ سنہ 2024ء میں عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور اُس وقت کے وزیر دفاع یوآف گالانٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے باوجود اسرائیل اور امریکہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یکطرفہ طور پر غزہ میں جنگی جرائم کا ذمہ دار فقط حماس کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ انصاف اور انسانی حقوق کا ایک دہرا عالمی معیار ہے جو نہ صرف غزہ میں جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ اس سے خطے میں بداعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے اور مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے سارے راستے بھی محدود ہوتے ہیں۔
امریکی ویٹو کے بعد عزہ میں جنگ بندی کے امکانات محدود ہو گئے ہیں۔ تازہ ترین اطاعات کے مطابق اردن کے ساتھ مغربی کنارے کی راہداری بند ہو گئی ہے۔ 20سمبر کو اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہفتہ کے روز بھی غزہ کی پٹی میں 47 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی تنقید کے باوجود غزہ پٹی کے اس مرکزی شہر پر اپنی فوجی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اسرائیل پر ایک حوثی حملے کے بعد جنگ بندی کی بجائے اس کا دائرہ پھیلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے عبدالملک الحوثی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ، "عنقریب تمھاری باری بھی آئے گی”۔
Title Image by NoName_13 from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |