پاک سعودی دفاعی معاہدہ کے اثرات
قطر پر اسرائیل نے 9ستمبر کو حملہ کیا۔ اس سے اگلے دو روز میں پاکستانی وزیراعظم جناب میاں محمد شہباز شریف، سعودی ولی عہد عزت مآب شہزادہ محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے صدر عزت مآب شیخ محمد بن زاید دوحہ پہنچے۔ اس کے فورا بعد قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان بن جاسم آل ثانی امریکہ گئے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ تب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 142 ووٹوں کی واضح اکثریت سے قطر پر اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کی، جس میں فلسطین کے "دو ریاستی حل” پر بھی زور دیا گیا تھا۔ اسی دوران 15 ستمبر کو دوحہ میں مسلم سربراہی ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں 50 مسلم ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں نیٹو کی طرز پر "مسلم ٹاسک فورس” کے قیام پر زور دیا گیا تھا۔ چونکہ پاکستان ایک واحد "اسلامی ایٹمی طاقت” ہے تو اس سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور اہمیت کھل کر سامنے آ گئی۔
اس واقعہ سے قبل مئی 2025ء میں پاکستان نے بھارتی "سندور سرجیکل سٹرائگ” کے خلاف جو کامیاب "بنیان مرصوص” آپریشن کیا تھا اور جس نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا، اس سے بھی امریکہ اور مغرب سمیت دنیا بھر میں پاکستان کے عزت اور وقار میں اضافہ ہوا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب پوری دنیا کی توجہ پاکستان پر مرکوز ہو گئی تھی۔ اس کی ایک بین مثال یہ ہے کہ کسی بھی امریکی صدر نے پاکستان کے آرمی چیف کو پہلی بار امریکہ کے خصوصی دورے اور وائٹ ہاوس میں کھانے کی دعوت دی تھی۔
ایک پاکستان ہی نہیں بلکہ اب یہ موقعہ پوری اسلامی دنیا کے لیئے ایک نئی صبح لے کر طلوع ہوا ہے کہ جب ایک قدیم عرصے کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ، "فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا”، جس کا اردو ترجمہ ہے: "پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے” یا "یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی ہے”۔ یہ سورۃ الشرح (الانشراح) کی آیات 5 اور 6 کا حصہ ہے، جو اس بات کی خوشخبری دیتی ہے کہ جب بھی کوئی تنگی یا سختی پیش آئے گی، تو اس کے بعد آسانی بھی ضرور آئے گی. ایک ایسا ملک جو ایک لمبے عرصہ سے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیئے مذاکرات کی میزبانی کر رہا تھا، اس پر اسرائیل نے اس وقت حملہ کیا، جب دوحہ میں امریکہ اور حماس کے درمیان امن مذاکرات ہو رہے تھے۔ پاکستان نصف صدی تک، سعودی عرب ریاض کی سایہ دار ڈھال رہا۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان کے فوجی تربیت دینے کے لیئے وہاں پہنچے۔ 1982 تک سعودی عرب میں ایک پوری ڈویژن پاکستانی فوج تعینات تھی۔ سنہ 1990ء میں جب عراقی صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا، تو اسلام آباد نے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیئے ہزاروں مزید دستے بھیجے۔ تب سعودی شہزادوں نے بے ساختہ کہا تھا کہ اگر سعودی خودمختاری خطرے میں ہو گی، تو پاکستانی فوجی مکہ اور مدینہ کی حفاظت کے لیے جان لڑا دیں گے۔ ایک ریٹائرڈ سعودی کرنل نے دعوی کیا تھا کہ، "پاکستانی ہم پر حملہ کرنے والوں کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، پاکستانی فوجی ہمارے قابلِ اعتماد دوست تھے۔” اگر حالیہ پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ اگلے چند سالوں تک عملی شکل اختیار کر کے قائم رہا تو اس سے "اسلامی بلاک” کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے کیونکہ "ابراہم اکارڈ” کی معطلی کے بعد دیگر چھوٹے خلیجی ممالک مثلا متحدہ عرب امارات، اومان، قطر اور بحرین سمیت ایران وغیرہ کے بھی اس معاہدے میں شامل ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
سعودی عرب نے فضائیہ کے F-15 طیاروں کی گن گرج سے پاکستان کے وزیر اعظم کو ایک فقید المثال ہوائی سلیوٹ پیش کیا. پاکستانی طیارے میں ایک طرف سویلین وزیراعظم شہباز شریف تھے، اور دوسری طرف پاکستان کے طاقتور ترین آرمی چیف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر موجود تھے. یہ شاہی سلامی بظاہر دونوں کے لیے تھی، مگر سفارت کاروں، فوجی افسروں اور عالمی اقتدار کے کھیل کو سمجھنے والوں کی نگاہیں فیلڈ مارشل جنرل منیر پر مرکوز تھیں۔ سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض اگر کسی پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ یہی شخصیت ہیں۔ اس سلامی کے پیچھے، سعودی عرب اور ایٹمی طاقت پاکستان کو ایک باقاعدہ دفاعی اتحاد میں باندھنے والے معاہدے کی سیاہی ہے۔ یہ معاہدہ اس امر کی ترجمانی کرتا ہے کہ ستمبر 2025ء کو ریاض پرانے سہاروں پر مزید تکیہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اب امریکی سعودی سیکیورٹی معاہدہ امریکی کانگریس کی بھول بھلیوں میں اٹک کر رہ گیا ہے، جبکہ غزہ کی جنگ اور دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملوں نے امریکی ضمانتوں کا بھرم توڑ دیا ہے۔ جیسا کہ ایک سابق سی آئی اے تجزیہ کار نے کہا تھا کہ، "سعودیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنا سارا وزن ایک ہی پلڑے میں نہیں ڈالیں گے۔” دوسری طرف، پاکستان معاشی آکسیجن کے لیے بے تاب ہے۔ ریاض نے حال ہی میں اربوں ڈالر کے تیل کی ادائیگیوں کو مؤخر کیا ہے اور اس میں مزید اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی شامل ہے۔ اسلام آباد کے لیے یہ معاہدہ زندگی کی سانس ہے، اور ریاض کے لیے تزویراتی گہرائی لیئے ہوئے ہے.
سعودی عرب کے لیئے راولپنڈی ہیڈ کوارٹر کے فیلڈ مارشل عاصم منیر ایک "پسندیدہ شخصیت” کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ انہوں نے خفیہ دوروں اور مشترکہ سیکیورٹی ایجنڈوں کے ذریعے ولی عہد عزت مآب شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ اعتماد کا قریبی رشتہ قائم کیا ہے. سعودی حکام انہیں ایک ایسے ٹھوس اور مستحکم کردار کے طور پر دیکھتے ہیں جو وعدے نبھانا اور نتائج دینا جانتا ہے۔ جیسا کہ خلیج کے باخبر ذرائع نے کہا ہے کہ، "یہ منیر ہے جو اس معاہدے کا ضامن ہے۔”
اس تمام صورتحال کو نیو دہلی شدید بے چینی سے دیکھ رہا ہے۔ مئی 2025ء کے بحران نے یہ زخم تازہ کر دیئے ہیں کہ چھوٹی جھڑپیں کتنی تیزی سے ایک "بڑی تبدیلی” میں بدل سکتی ہیں۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ بھارتی منصوبہ سازوں کے لیے بھیانک خوابوں سے کم نہیں ہے۔پاکستانی افواج خلیجی سرزمین کو استعمال کر سکیں گی۔ سعودی ریال اسلام آباد کے ایٹمی پروگرام کو مزید مضبوط کریں گے۔ اگرچہ سعودی سفارتکار دہلی کو یقین دہانیاں کرا رہے ہیں، مگر علامات کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ سعودی شہزادے کا شریف اور منیر کو یوں سرعام گلے لگانا، شاہ فیصل کے پاکستان کی جانب واضح جھکاؤ کی یادیں تازہ کر رہا ہے۔
مجموعی طور پر، یہ معاہدہ خلیج کے سیکیورٹی نقشے کو از سر نو ترتیب دیتا ہے کیونکہ سعودی تیل کی تنصیبات کی حفاظت کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی، پاکستانی افواج کی خطے میں وسیع تر تعیناتی، ڈرون اور گولہ بارود کی مشترکہ پیداوار، اور بحیرہ عرب و بحیرہ احمر میں مشترکہ بحری گشت، یہ سب کچھ مل کر ایک نیا دفاعی بلاک تشکیل دے سکتا ہے۔
اس کے باوجود اس دفاعی معاہدے کے امکانی خطرات بھی گہرے ہیں۔ بھارت اسے پاکستان کی جارحیت کے لیے ایک کھلی چھوٹ سمجھ سکتا ہے۔ ایران اسے اپنے خلاف ایک "سنی ایٹمی چھتری” کے طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اور واشنگٹن، جس کا اپنا معاہدہ کھٹائی میں پڑا ہے، اس نئی قربت پر پیچ و تاب کھا سکتا ہے۔ اس سے پاکستان کے اندر، فوج کا سیاسی اثر و رسوخ مزید گہرا ہو گا۔ ریاض کی آشیرباد سے، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کا ہاتھ اسلام آباد کی سیاست پر پہلے سے کئی گنا بھاری ہو سکتا ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |