ڈسپلن کا نیا فلسفہ: سزا سے سیکھنے تک
تحریر محمد ذیشان بٹ
بچوں کو سزا دینا ہمیشہ سے ایک حساس اور نازک موضوع رہا ہے۔ ماضی کے اساتذہ کا عمومی انداز یہی تھا کہ ڈنڈا ہی سبق یاد کرانے اور نظم و ضبط قائم رکھنے کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج کا دور بدل چکا ہے۔ ہم جس صدی میں جی رہے ہیں وہاں بچے زیادہ با شعور، زیادہ سوال کرنے والے اور زیادہ جستجو رکھنے والے ہیں۔ ایسے میں مار دھاڑ یا جسمانی سزائیں نہ صرف غیر مؤثر ہو گئی ہیں بلکہ بعض اوقات بچے کی شخصیت کو توڑ دیتی ہیں، اس کے اعتماد کو کمزور کر دیتی ہیں اور علم سے اس کا رشتہ مزید کمزور کر دیتی ہیں۔
بطور معلم مجھے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوئے اٹھارہ برس ہو چکے ہیں۔ اس دوران بے شمار منتظمین اور پرنسپل صاحبان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہوا۔ مگر سچ یہ ہے کہ کچھ ہی لوگ ایسے ملے جن سے کام کرنے میں حقیقی مزہ آیا، سیکھنے کو ملا اور اپنے نظریات میں نکھار پیدا ہوا۔ سر آصف یعقوب جیسے افراد آج بھی کم یاب ہیں جو استاد تیار کرنے کے ہنر سے واقف تھے۔ وہ ایک اسکول کو صرف چلانے پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ استاد کو استاد بنانے کا فن جانتے تھے۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے فیصل سکول نے ہمیشہ ایک تربیتی ماحول فراہم کیا ہے، البتہ میرا اختلاف ہمیشہ ایک نکتے پر رہا کہ آج کے دور میں اچھے استاد کا ملنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ اس کی تازہ مثال نویں اور دسویں کے نتائج ہیں۔
سر بابر ان اساتذہ میں سے ہیں جن پر بلا جھجک کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس شعبے کی آبرو ہیں۔ وہ جہاں بھی رہے اپنے کام کے ساتھ مکمل اخلاص سے جڑے رہے۔ کبھی ذمہ داری سے جی نہیں چرایا بلکہ اس انداز سے محنت کی کہ دیکھنے والے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ پرنسپل، ساتھی اساتذہ، والدین اور شاگرد سب کے لیے وہ فخر کا باعث ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سر بابر جیسے لوگ استاد کے لفظ کو عزت بخشتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے دم سے ادارے کا وقار قائم رہتا ہے۔
سر آصف کے بعد جس شخصیت کا ذکر ضروری ہے وہ ڈی پی ایس کی پرنسپل، مسز ثمینہ ہیں۔ سچ کہوں تو ان سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، اور اگر کچھ نہ بھی ملے تو انگریزی کی مہارت سے ضرور حظ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان کے الفاظ کی ادائیگی ایسی ہے جیسے کوئی قاری قرآنی آیات تلاوت کر رہا ہو۔ انگریزی سننے کا شوق نہ رکھنے والا بھی مان جاتا ہے کہ یہ مزہ تو نصاب کی کتابوں میں کہاں ملتا ہے! کبھی کبھی انگریزی کی وہ روانی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ لگتا ہے ابھی ہمارے اردو کے کان ہتھیار ڈال دیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ ایک وقار، شائستگی اور متانت کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے گفتگو سننے والا بور ہونے کے بجائے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ایسے لوگ ہی ادارے کو نئی جہت دیتے ہیں۔ لیکن سوال وہی ہے کہ بچوں کی تربیت اور ڈسپلن کے لیے کیا اب بھی پرانے طریقے، مار دھاڑ اور جسمانی سزائیں اپنانی چاہئیں؟ ڈی پی ایس کی پرنسپل صاحبہ نے ایک غیر رسمی گفتگو میں یہی سوال اٹھایا تھا کہ بچوں کو ڈسپلن میں رکھنے یا ان سے بہترین کام لینے کے لیے کیا جسمانی سزا ہی واحد حل ہے؟ یہی سوال میرے قلم کو حرکت دینے کا باعث بنا۔
سچ تو یہ ہے کہ جسمانی سزا وقتی خوف تو پیدا کر دیتی ہے مگر یہ خوف علم اور کردار سازی میں کبھی مددگار نہیں بن سکتا۔ ہمیں سزا کو سبق میں بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے کچھ جدید اور دلچسپ طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم ہوم ورک نہ کرے یا سبق یاد نہ کرے تو اسے کھڑا کرنے کے بجائے یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ اگلے دن پوری کلاس کو ایک چھوٹا سا سبق یا دلچسپ واقعہ سنائے۔ اس سے بچے کو تیاری کی عادت پڑے گی اور بولنے کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ شور شرابہ کرنے والے یا غیر سنجیدہ بچے کو لائبریری میں بھیجا جائے اور وہاں سے ایک مختصر کہانی یا سبق آموز تحریر پڑھوا کر کلاس کے سامنے اس کا خلاصہ بیان کرنے کو کہا جائے۔ یہ سزا بھی ہے اور ساتھ ساتھ مطالعے کی عادت ڈالنے کا ذریعہ بھی۔ اگر کوئی بچہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اسے سزا کے طور پر کسی کمزور طالب علم کو سبق سمجھانے کی ذمہ داری دی جائے۔ اس سے نہ صرف دونوں کا فائدہ ہوگا بلکہ بچے میں ذمہ داری کا احساس بھی بڑھے گا۔
غیر سنجیدہ طلبہ کو یہ کام دیا جا سکتا ہے کہ وہ اگلے دن کے سبق پر پانچ یا دس سوال تیار کریں۔ اس سے وہ سبق دوبارہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے اور کلاس میں سرگرمی بھی بڑھے گی۔ بعض اوقات بد نظمی کی صورت میں چند طلبہ کو ایک سبق آموز ڈرامہ یا مکالمہ تیار کر کے کلاس کے سامنے پیش کرنے کو کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مزے دار سرگرمی بھی ہے اور بچوں کو نظم و ضبط کا سبق دینے کا عملی طریقہ بھی۔ شرارتی بچوں کو یہ سزا دی جا سکتی ہے کہ وہ کلاس بورڈ صاف کریں، کرسیاں سیدھی کریں یا چھوٹے بچوں کی کلاس میں جا کر مدد کریں۔ اس سے انہیں محنت کی اہمیت اور خدمت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ کچھ بچوں کو خاموشی کا ٹاسک دیا جائے کہ وہ پورا ایک پیریڈ بغیر شور شرابے کے گزاریں، اور اگر کامیاب ہوں تو انعام ملے۔ یہ سزا بھی ہے اور تربیت بھی۔
یہ تمام طریقے سزا کے ساتھ ساتھ تربیت، اصلاح اور شخصیت سازی کا ذریعہ ہیں۔ ایسے اقدامات سے بچے نہ صرف اپنی غلطی کو سمجھیں گے بلکہ آئندہ کے لیے مثبت تبدیلی بھی اختیار کریں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ اور والدین مل کر بچوں کی تربیت کا ایسا ماحول بنائیں جس میں ڈنڈے کی نہیں بلکہ کردار سازی اور اخلاقی ذمہ داری کی خوشبو ہو۔ یاد رکھنا چاہیے کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ اگر ہم انہیں جسمانی سزاؤں کے ذریعے خوفزدہ کر کے پروان چڑھائیں گے تو وہ کل معاشرے میں یا تو بغاوت کریں گے یا احساسِ کمتری کا شکار ہوں گے۔ لیکن اگر ہم انہیں محبت، دانشمندی اور سبق آموز تجربات کے ذریعے سنواریں گے تو وہ کل کے معمار بن کر سامنے آئیں گے ۔ ہمیشہ کی طرح تھوڑا نہیں مکمل غور کیجے ۔ تجربہ شرط ہے

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |