پاک-بھارت حالیہ کشیدگی: علاقائی امن کی تلاش
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی نازک اور پیچیدہ رہے ہیں۔ 1947 کی تقسیم کے بعد سے ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان تین بڑی جنگیں (1948، 1965، 1971) ہو چکی ہیں جبکہ 1999 کی کارگل جنگ اور 2001، 2016 اور 2019 میں کشیدگی کے شدید واقعات بھی اس تلخ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان تمام تنازعات کی بنیادی جڑ مسئلہ کشمیر رہا ہے، جسے اقوام متحدہ کے قراردادوں کے تحت حل کیا جانا تھا، مگر بھارت نے اس مسئلے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کی کوشش کی، خاص طور پر 5 اگست 2019 کو آئینی حیثیت کی تبدیلی کے ذریعے بھارت نے غیر قانونی اقدام کیا ہے۔
2025 کے اوائل میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک المناک واقعہ پیش آیا جس کے فوراً بعد بھارتی میڈیا اور سرکاری بیانیے نے حسبِ معمول پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔ بھارتی پروپیگنڈے کے مطابق پاکستان کی سرزمین سے کارروائی ہوئی، جس کا مقصد سکھ برادری کو اشتعال دلانا تھا۔ اس کے بعد جھوٹے دعوے کیے گئے کہ پاکستان نے ڈرونز کے ذریعے دراندازی کی اور 15 مختلف مقامات پر حملے کیے گئے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سینیٹ میں اپنے بیان میں نہایت واضح اور جامع انداز میں پاکستان کے مؤقف کو پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں اور دنیا کو حقائق سے آگاہ کر کے بھارتی جھوٹ کو بے نقاب کیا گیا۔ پاکستان نے نہ صرف سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کیا بلکہ عالمی میڈیا اور اداروں کو بھی قائل کیا کہ بھارت کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے۔
6 اور 7 مئی کی درمیانی رات کو بھارت نے پاکستانی حدود میں دراندازی کی کوشش کی اور مبینہ طور پر 75 سے 80 طیارے استعمال کرتے ہوئے 24 "پے لوڈز” گرائے۔ ان حملوں میں عام شہریوں کے مکانات اور مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کے جواب میں، پاکستان نے دفاعی کارروائی کی اور "آپریشن فیز 1” کا آغاز کیا جس کے تحت مخصوص بھارتی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ ایک مؤثر اور طاقتور پیغام تھا کہ پاکستان اب محض صبر پر نہیں بلکہ مؤثر دفاع پر یقین رکھتا ہے۔ بھارتی افواج کی پسپائی اور بعض چوکیوں پر سفید جھنڈے لہرا دینا اس مؤقف کی کامیابی کا ثبوت تھا۔
10 مئی کو پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان گفتگو میں 12 مئی تک سیزفائر پر اتفاق ہوا، جسے بعد ازاں 14 اور پھر 18 مئی تک بڑھا دیا گیا۔ اس پیش رفت کو عالمی سطح پر سراہا گیا، خاص طور پر امریکی وزیر خارجہ نے خود رابطہ کر کے بتایا کہ بھارت سیزفائر کا خواہاں ہے۔
اسحاق ڈار کے مطابق اب معاملات سیاسی مذاکرات کی طرف بڑھیں گے، جن میں سندھ طاس معاہدہ، کشمیر اور دیگر باہمی تنازعات شامل ہوں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان امن کو عزت و وقار کے ساتھ چاہتا ہے، نہ کہ دباؤ یا بالادستی کے تحت امن کا خواہاں ہے۔
اس تمام صورتحال میں سب سے اہم پہلو عالمی برادری کا رویہ ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ عالمی میڈیا اور مقتدر حلقوں نے بھارت کی یکطرفہ الزام تراشی کو تسلیم نہ کیا، بلکہ پاکستان کے مؤقف کو وزن دیا۔ امریکہ جیسے ملک نے بھی تصدیق کی کہ کوئی پاکستانی ایف 16 بھارت کی حدود میں نہیں گیا، جس سے بھارتی جھوٹ واضح ہو گیا۔
حالیہ کشیدگی کے تناظر میں چند اہم نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں جن میں سرفہرست بھارت کا اسٹریٹیجک جھوٹ بھی شامل ہے۔ پہلگام واقعے سے لے کر ڈرون حملوں تک، بھارت کا بیانیہ پراپیگنڈے پر مبنی رہا۔ پاکستان نے ہر موقع پر تدبر، سنجیدگی اور شفافیت سے کام لیا، جس سے عالمی ساکھ میں اضافہ ہوا۔پاکستان نے پہلی بار عسکری جواب اور سفارتی پیش رفت کو متوازن انداز میں استعمال کیا، جو ایک نئی پالیسی اپروچ کا مظہر ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کا دفاع صرف سرحدوں کی نہیں بلکہ سچائی، اخلاقیات اور امن کی بھی حفاظت کرتا ہے۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کی راہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب بھارت اپنی جارحانہ پالیسی ترک کر کے سنجیدہ مذاکرات کی میز پر آئے۔ اگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا تو پاکستان ہر ممکن دفاعی اقدام کے لیے تیار ہے۔ لیکن اگر امن کی طرف قدم بڑھایا گیا تو پاکستان، عزت و وقار کے ساتھ، سفارتی حل کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
اسحاق ڈار کا سینیٹ میں بیان صرف ایک حکومتی مؤقف ہی نہیں بلکہ ایک نیا قومی بیانیہ بھی ہے جو جارحیت کے مقابلے میں مدبرانہ دفاع اور جھوٹ کے مقابلے میں سچائی پر مبنی ہے۔ اس بیانیے کا تسلسل ہی پاکستان کو نہ صرف داخلی طور پر مضبوط کرے گا بلکہ عالمی سطح پر باوقار مقام بھی دے گا۔
Title Image by Iván Tamás from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |