کیا یہ سیاسی قتل ہوگا؟
نیلسن منڈیلا عالمی سیاسی تاریخ کا ایک کرشماتی کردار ہیں۔ انہوں نے 27سال تک پابند سلاسل رہنے کے بعد 9مئی 1994ء کو جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر کا عہدہ سنبھالا. وہ 1999ء تک اس عہدے پر فائز رہے اور ان کی حکومت نے نسلی امتیاز کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا. نیلسن منڈیلا 3 اکتوبر 1992ء کو پاکستان آئے جبکہ پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں 25 مارچ 1992ء کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ تب عمران خان شہرت اور نیک نامی کے بام عروج پر تھے۔ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تھے۔ حکومت پاکستان نے نیلسن منڈیلا کو "نشان پاکستان” ایوارڈ دینے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے عمران خان سے ملنے کی شرط رکھ دی۔ اس وقت عمران خان بھی پاکستان میں تھے۔ جنوبی افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا کی عمران خان سے ملاقات کی خواہش پوری کر دی گئی۔ ملاقات کے بعد نیلسن منڈیلا نے عمران خان کے ساتھ مصافحہ کیا اور تصویر بنوائی جس کے بعد انہوں نے اسلام آباد سے کراچی کا دورہ کیا اور واپس جنوبی افریقہ چلے گئے۔ آج وہی عمران خان نیلسن منڈیلا کی طرح خود سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ عمران خان کی اسیری اور نیلسن منڈیلا کی قید میں ان کی سیاسی جدوجہد اور نصب العین کا فرق ہے۔ عمران خان جس مقام اور زاویئے سے پاکستان کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں آج انہیں اس مقصد کے حصول کی خاطر جدوجہد کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔
جس طرح 9مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر عمران خان (اور ان کے ساتھیوں) کو قید کیا گیا اس کی پاکستان کی سابقہ سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ عمران خان کی قید جہاں پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی بلواسطہ کوشش ہے وہاں اس کے پیچھے وہی خوف لاحق ہے جو ضیاء الحق کو بھٹو کی رہائی سے تھا۔ پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ضیاء الحق کے 5جولائی 1977ء کے دن لگائے گئے مارشل لا کے کچھ عرصہ بعد ضمانت پر رہا ہو گئے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بھٹو صاحب کو مزید آزاد رکھا گیا تو وہ اس کے لیئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اس سوچ کے ساتھ 9مئی کے واقعات کی آڑ میں پہلے پارٹی کے اندر ٹوڑ پھوڑ گئی اور جب مقصد پورا نہیں ہوا تو فروری 2024ء کے عام انتخابات میں بدنام زمانہ فارم47 کو چلایا گیا جس کے بارے میں چند روز قبل تحریک انصاف کے بانی عمران خان کا کہنا تھا کہ فارم 47 کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو گی تاہم جو بھی بات ہو گی وہ اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے ذریعے ہو گی۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان نے علیمہ خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ فارم 47 کی بنیاد پر قائم حکومت سے مذاکرات کی امید بہت کم ہے۔ بھٹو صاحب سیاست کے طالب علم تھے اور کم و بیش 32سال کی کم عمر میں اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہو گئے تھے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی انٹری سیاست میں بھٹو خاندان کی سیاست کے خاتمہ کیلئے کی گئی تھی خاص طور پر پنجاب میں جہاں نواز شریف نے وہ طرز سیاست بھی اپنایا جو وفاق کے حق میں نہیں تھا بلکہ اس سے صوبائیت کا تعصب جھلکتا تھا جس کے بغیر شاید ایک غیر سیاسی اور بزنس سے تعلق رکھنے والے میاں صاحب کو مقبولیت نہیں مل سکتی تھی یعنی ایک لسانی نعرہ ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نو لگ گیا داغ‘‘ بلند کیا گیا۔
میثاق جمہوریت کی دستاویز کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کی راہ میں اصل رکاوٹ کہاں پیدا کی جاتی ہے کس مقبول لیڈر کا سیاسی قتل کرنے کے لیئے کیا حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ 2008ء سے 2024ء تک اُنہی قوتوں کو مزید طاقت دی گئی اور آج بھی دی جا رہی ہے جن کے خلاف مفاہمت کیلئے ’’میثاق جمہوریت ‘‘ کیا گیا تھا۔ جب نون لیگ اور پی پی پی کی دونوں بڑی جماعتوں کے اس طرز سیاست اور ناقص حکمرانی سے ملک میں سیاسی خلا پیدا ہوا تو اسے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پر کیا۔ انہوں نے 2011ء کے بعد "کرپشن کا خاتمہ” اور "تبدیلی” کے نعرے سے جس تیزی سے مقبولیت حاصل کی اُس کا اندازہ خود مقتدرہ کو بھی نہیں تھا۔ عمران خان ہماری سیاسی تاریخ کے شاید واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے نہ صرف جرنیلوں اور ججوں کے گھروں میں جگہ بنائی بلکہ جس طبقہ میں انہیں لازوال پذیرائی ملی وہ نوجوان طبقہ ہے اور وہ خاندان ہیں جن کا 40فیصد آج بھی عمران خان کے ساتھ ہے۔
جب 8فروری کو الیکشن ہوئے تو عمران نااہل تھے اور جیل میں تھے، 9مئی کے بعد پارٹی قیادت گرفتار بھی تھی اور زیر زمین بھی تھی۔ الیکشن نشان بھی آخری وقت میں دیا گیا۔ یہ شاید تاریخ کا واحد الیکشن تھا جو نہ پارٹی نے لڑا نہ لیڈروں نے لڑا بلکہ یہ صرف ووٹرز نے لڑا اور پہلی بار جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں آزاد اُمیدواروں کو بھاری کامیابی ملی۔
الیکشن کمیشن نے 2024ء میں قومی اسمبلی کی 265 میں سے 253 نشستوں کے نتائج کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق آزاد 100، ن لیگ 71، پی پی 54، ایم کیو ایم 17، آئی پی پی 2 اور جے یو آئی 3 نشستوں پر کامیاب ہوئی جبکہ قاف لیگ نے 3، پی کے میپ 1، اور ایم ڈبلیو ایم نے 1 نشست جیتی تھی جبکہ سب سے زیادہ 100 آزاد نشستیں حاصل کرنے والوں کی اکثریت پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ تھی۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت کا یہی خوف ہے جو 9مئی کے پیچھے کارفرما تھا، جو اب عمران خان کو نیلسن منڈیلا کی طرح سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ عمران خان کی یہ قید ناخواستہ مجرمانہ سزا سے زیادہ ایک "سیاسی قتل” کے مترادف بنتی جا رہی ہے۔ اگر حکومت کو عمران خان سے کوئی خوف نہیں ہے تو اسے آزاد کر کے اس کا مقابلہ جمہوری ایوانوں میں کیا جانا چایئے ناکہ اسے قید میں رکھ کر کیا جانا چایئے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو لنگڑی لولی جمہوریت رائج ہے اس پر بھی خوف کے سائے ہیں۔
Title Image by Oliver from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |