پاکستان کا مطلب اور مفتی شمائل کی درفتنی
بھارتی شاعرہ شبینہ ادیب کانپوری کا ایک شعر یاد آ گیا ہے کہ، "ذرا سا قدرت نے کیا نوازا کہ آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں، ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں ابھی تو شہرت نئی نئی ہے۔” بھارت میں ایک مناظرہ ہوا جس کا عنوان تھا، "کیا خدا کا وجود ہے؟” اس مناظرے میں مشہور اور کہنہ مشق بھارتی شاعر جاوید اختر اور نوجوان عالم دین مفتی شمائل ندوی آمنے سامنے تھے۔ ثانی الذکر مفتی شمائل کا نام اس سے پہلے شائد ہی کسی نے سنا ہو گا لیکن قدرت نے اس مباحثے میں وجود خدا کے حق میں چند دلائل دینے سے انہیں وہ شہرت عطا فرمائی کہ راتوں رات ان کی شہرت کا سورج ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد یوں ہوا کہ مفتی شمائل صاحب صحافیوں کے گھیرے میں آ گئے اور آگے پیچھے مختلف موضوعات پر کیئے گئے سوالات پر جانفشانی کرنے لگے۔ انہی سوالات میں سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ فرما دیا کہ، "میں پاکستان کو اسلامی ملک نہیں مانتا ہوں۔”
یہ مناظرہ بھارت کے شہر نئی دہلی میں ہوا۔ گو کہ دونوں اطراف سے سائنسی و مزہبی دلائل سینکڑوں سال پرانے تھے اور زیادہ تر جوابات بھی اتنے نئے اور جدید نہیں تھے لیکن یہ مباحثہ آنا فانا اس لیئے ہٹ ہو گیا کہ ایک تو جاوید اختر صاحب کا نام مسلمانوں والا تھا اور دوسرا وہ منکر خدا یا ایک ملحد کی حیثیت سے مناظرے میں شرکت کر رہے تھے جبکہ ان کے مدمقابل مفتی شمائل صاحب حلیئے اور عقیدے کے اعتبار سے خالصتا مسلمان تھے۔ چند ہی گھنٹوں میں یہ مباحثہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور اسے لاکھوں بار دیکھا اور سنا گیا اور جوابا اس سے کئی گنا زیادہ تبصرے بھی کیئے گئے جن کو کرنے والوں میں کچھ مشہور مفکر اور عالم دین بھی شامل ہیں۔ خدا کا وجود میرا بھی پسندیدہ موضوع ہے، میری ایک کتاب کے مسودے کا نام بھی "خدا کی سائنسی پہچان” ہے لیکن میں اس پر ہمیشہ تشنگی محسوس کرتا ہوں۔ گو کہ میں نے خدا کے وجود کے بارے میں قوانین فطرت اور جدید سائنسی نظریات کے حوالے سے بحث کی ہے لیکن خدا کے ہونے یا نہ ہونے کا سوال انسانی فہم و فراست سے کہیں زیادہ بڑا اور لامحدود یے کیونکہ انسان کائنات اور زندگی کا تجربہ محض اپنی پانچ حسوں کے بل بوتے پر کرنے کے قابل ہے جبکہ کائنات اتنی بڑی اور لامحدود ہے کہ ظاہری کائنات کی صرف کسی ایک کہکشاں میں اربوں کھربوں ستارے آتے ہیں جبکہ اب تک کی دریافتہ کہکشائیں ہی اتنی زیادہ ہیں جو سائنسی انکشافات کے مطابق مسلسل بڑھ بھی رہی ہیں کہ اپنے ذاتی و مجموعی سائنسی تجربے سے ہم ماسوائے عقیدے اور تصدیق دل کے ان کا مکمل سائنسی تجربہ کر کے یہ نہیں جان ساتھ ہیں کہ خدا ہے یا نہیں ہے۔
اس کے باوجود عقل و فہم اور علم نافع کا تقاضا ہے کہ کائنات اور زندگی سے بھرپور استفادہ کرنے کے لیئے ان کی حقیقت کو معلوم کیا جائے جو لامحالہ اور منطقی طور پر اس کے "تخلیق کار” (یعنی خدا) کے بارے میں بحث ہے۔ اس مناظرے کو بھی ابتدا میں سائنسی اور عقلی طور پر شروع کیا گیا لیکن آگے چل کر دونوں اطراف سے مناظرے کو جیتنے کی کوشش کی گئی حالانکہ علمی مباحث میں کسی کی ہار جیت کی بجائے موضوع کے نئے پہلووں کو اجاگر کیا جاتا ہے جو اس سے پہلے نظروں سے اوجھل ہوں اور وقتی جیت صرف اسی فریق کی ہوتی ہے جو موقع پر مستند اور مضبوط دلیل دے کر اپنے مدمقابل کو لاجواب کر دیتا ہے۔ اس بناء پر مشہور برطانوی مفکر برٹرینڈ رسل کا سوال آج بھی قائم ہے جنہوں نے یہ کہہ کر خدا کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ، "اگر کائنات کو خدا نے بنایا ہے تو خود خدا کو کس نے بنایا ہے؟” یہ منطق کا سوال ہے جس کا جواب مذہب کی زبان میں دے کر رسل یا اس جیسے دنیا کے کروڑوں منکرین خدا کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا ہے جو خدا یا مذہب کو سرے سے مانتے ہی نہیں ہیں۔ مفتی شمائل نے مذہب کا سہارا لیئے بغیر منطق اور سائنس کی زبان استعمال کرتے ہوئے جاوید اختر کو تو چت کر دیا تھا لیکن وہ اس سوال کے وسیع تناظر میں اس وقت خود چت ہو گئے جب بعد میں انہوں نے کسی صحافی کے سوال پر کہا کہ وہ پاکستان کو اسلامی ملک نہیں مانتے ہیں حالانکہ پاکستان کو اسلام کے نام پر اس بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا جس کا اصغر سودائی کا تخلیق کردہ نعرہ ہی یہ تھا کہ "پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ”۔ مناظرے میں مفتی شمائل صاحب کی بنیادی دلیل بھی وہی تھی جو گزشتہ آٹھ سو سال قبل سینٹ تھامس نے دی تھی جو کہ مابعد الطبعیات سے متعلق ہے اور جو سائنس کے احاطہ سے باہر ہے۔ چونکہ جاوید اختر صاحب تیاری کر کے آئے تھے اور نہ انہیں اس دلیل کی سمجھ آئی تھی جس وجہ سے وہ کنفیوز ہو گئے اور جونہی انہوں نے خاموشی اختیار کی مناظرہ مفتی صاحب کے حق میں چلا گیا۔ منطقی طور پر کسی ہستی کے ہونے کو تو سائنسی اور طبعی دلائل سے بھی ثابت کیا جا سکتا یے مگر اس کے نہ ہونے کو ماسوائے علم منطق کے جدید کوانٹم تھیوریز، مائنڈ سائنسز اور علم نفسیات سے بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ ہم خدا جیسی کسی بھی عظیم ہستی کی "غیر موجودگی” کا تصور کر سکتے ہیں اور اس تصور سے کوئی منطقی تضاد بھی پیدا نہیں ہوتا یے لیکن ہم اس کی "موجودگی” کو جدید سے جدید ترین سائنسی علوم کی روشنی میں بھی ثابت نہیں کر سکتے ہیں کہ جس کے بعد ہمیں صرف مذہب کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے بھی مفتی شمائل نے اتنے بڑے دلائل دیئے بغیر جاوید اختر پر علمی برتری حاصل کی جس کے بعد انہوں نے پاکستان کے بارے میں اسے غیر اسلامی کہہ کر اپنی اور مباحثے کی اہمیت کو کم کر دیا جس کا واحد پس منظر ان کا ہندوستانی مائنڈ سیٹ تھا۔ اگر وہ ہندوستانی حکومت اور ہندو عوام کا دباؤ لیئے بغیر یہ ریمارکس نہ دیتے تو انہوں نے خدا (یعنی اللہ) کی موجودگی کے حوالے سے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی تھی۔
جدید کوانٹم سائنس کی تھیوریز کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات بغیر کسی وجہ کے مسلسل پھیل رہی ہے۔ سائنس دانوں نے نوری سالوں کی دوری سے آنے والے کچھ پیغامات موصول کیئے ہیں یہاں تک کہ کائنات کی ابتداء کی بازگشت (ریزونینس) کو سائنس دان ابھی تک مسلسل ریکارڈ کر رہے ہیں جس سے کسی ایسی بے مثل اور عظیم الشان ہستی کے اشارے ملتے ہیں جنہیں ہم مسلمان "اللہ” اور "ذات باری تعالٰی” کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔ جدید کوانٹم سائنس کی روشنی میں فری الیکٹرانز بلاوجہ نیوکلیئس کے مدار سے باہر جمپ کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر واقعہ علت و معلول کا محتاج نہیں ہو سکتا ہے۔ کوانٹم فزکس نے تابکاری جیسی دریافتوں سے یہ تک ثابت کر دیا ہے کہ بغیر کسی ظاہری سبب کے چیزیں محض اتفاقیہ طور پر بھی رونما ہوتی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر واقعے کے لیئے کسی سبب کا ہونا کوئی آفاقی قانون نہیں ہے اور جس کا سبب صرف اور صرف خدا اور اللہ جلالہ جیسی عظیم ہستی ہی ہو سکتی ہے جو علم الکلام یا کسی منطق کی پابند نہیں ہے۔
مفتی شمائل ندوی کے لیئے بہتر ہوتا کہ وہ اپنے دائرے میں رہتے اور غرور کا شکار نہ ہوتے۔ پاکستان کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ ﷺ پر رکھی گئی تھی اور جہاں 25 کروڑ کی 98 فیصد آبادی مسلمان ہے جسے "غیر اسلامی” قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ مفتی صاحب کے منہ میں خاک۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ان کہنے یا نہ کہنے سے پاکستان کا مطلب بدل نہیں سکتا ہے۔ مفتی صاحب نے اسلامی تعلیمات کا ماخذ قرآن و سنت کو ضرور قرار دیا جس میں وہ حق بجانب تھے لیکن آخر میں وہ پاکستان کو "غیر اسلامی” کہہ کر غلطی کر گئے کیونکہ پاکستان کی عوام شریعت کے مکمل نفاذ کے نہ ہونے سے گنہگار تو ہو سکتی ہے مگر وہ غیر اسلامی ہرگز نہیں ہو سکتی ہے۔ مفتی صاحب پر شبینہ ادیب کا یہ شعر بھی صادق آتا ہے کہ،
"جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا،
تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے”
فقہاء کے نزدیک اسلامی ملک وہ ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہو، حکومت مسلمانوں کی ہو، مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو، اقلیتوں کے جان و مال اور آبرو کا تحفظ ہوتا ہو اور آئینی و نظری سطح پر اسلام کو ماخذ مانا جاتا ہو۔ سودی نظام کی معیشت یا حدود اللہ کے نفاذ سے پہلو تہی یا بہانے بازی وغیرہ کی بنیاد پر کسی ملک کو غیر اسلامی نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس سے ملک غیر اسلامی ہو جاتا ہے۔
حجاج بن یوسف کے دور میں کیا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ سعید ابن جبیر جیسے بڑے محدث کا سر عین سر بازار قلم ہوا تھا جس نے حجاج کی شان میں گستاخی کی تھی۔ کیا آج کوئی مسلم حکمران ایسی جرات کر سکتا ہے کہ وہ کسی معمولی سے پیش امام کی لاش بھی اس کی مسجد کے گیٹ پر لٹکا دے؟ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھانجے حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش حرم کے گیٹ سے لٹکائی گئی تھی۔ کس اسلامی قانون کے تحت یہ ذلیل حرکت کی گئی تھی؟ حضرت امام مالک رحمتہ اللہ کے دور کے مدینہ منورہ میں یہ عام معمول بن گیا تھا۔ لہذا کسی ملک کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کے سوال کا جواب ان اسلامی واقعات کی مدنظر رکھ کر دیا جاتا ہے ناکہ "ذاتی جذبات” اور "شہرت” کے نشے میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس کو صرف فقہاء کی آراء کی روشنی میں ہی دیکھا جاتا ہے کہ جس طرح شراب پینے، زنا کرنے یا کسی معصوم کی جان لینے، یا کوئی اور سنگین جرم کرنے سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو جاتا ہے بلکہ مجرم اور گنہگار ہوتا ہے اسی طرح کوئی مسلم ملک بھی اگر کسی حکم الہی پر مکمل عمل نہیں کرتا ہے تو وہ گنہگار تو ہو سکتا ہے مگر وہ غیر اسلامی ملک نہیں ہوتا ہے۔
شائد مفتی شمائل بھی اس مباحثے کے بعد بقولے شاعر ہوا میں اڑنے لگے تھے۔ مفتی تقی عثمانی کا حالیہ بیان نما فتوی کے مطابق بھی پاکستان اسلامی ریاست ہے۔ مفتی شمائل کا بیان چہ معنی دارد کے ضمرے میں آتا ہے جس کے پیچھے بھی ہندوستانی ریاست کا وہ دباؤ شامل ہے جہاں بیٹھ کر انہوں نے اس مباحثے میں حصہ لیا۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |