قومی ایئرلائن کا انجام
تحریر: جوسف علی
پی آئی اے کو بلآخر اونے پونے داموں بیچ دیا گیا۔ ایک عرصہ سے اسے "سفید ہاتھی” کہا جا رہا تھا جس سے بقول سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، "قومی خزانے کو ہر سال 30 سے 40 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔” سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی آئی اے کی 75 فیصد نجکاری یا اسے بیچنا ہی اس خسارے کو پورا کرنے کا واحد حل تھا؟ پی آئی کو فروخت کرنا اس کا قطعا حل نہیں تھا ورنہ عارف حبیب کنسورشیم اسے 135 ارب روپے کی بولی لگا کر ہرگز نہ خریدتی۔ عارف حبیب کنسورشیم تو ایک کاروباری گروپ ہے جس میں تین اور گروپس نے مل کر اسے خریدا ہے اور گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں کیا ہے۔
نجکاری کمیشن اور اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کو نجی گروپ کو 135 ارب روپے میں فروخت کیا جبکہ فروخت شدہ ایئرلائن کے اثاثوں کی مجموعی مالیت اس سے کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے اور اس حوالے سے تفصیلات بھی سامنے آ گئی ہیں۔ ایک بڑے اخبار نے عارف حبیب کنسورشیم کو فروخت کی گئی پی آئی اے کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 150 سے 190 ارب روپے کے قریب بتائی ہے۔ حکومت پاکستان نے پی آئی اے کی 5 جائیدادیں تمام جہاز، ملکی و بین الاقوامی روٹس اور آپریشنز نجکاری کے لئے پیش کئے تھے۔ نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے کے مجموعی اثاثے 150 سے 190 ارب روپے کے درمیان ہیں۔ قومی ایئرلائن پی آئی اے کے پاس 34 طیارے ہیں، جن میں سے 18 آپریشنل اور 16 گراؤنڈڈ ہیں، پی آئی اے 45 بین الاقوامی اور 25 ملکی روٹس پر روزانہ 70 پروازیں چلاتی ہے۔اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 9 ہزار 500 ہے جنہیں ایک سال تک ملازمت کا تحفظ دینا ہو گا۔ پی آئی اے کی یومیہ آمدن 600 سے 800 ملین روپے کے درمیان ہے۔ جنوری سے جون 2025ء کے دوران پی آئی اے کی آمدن 112 ارب روپے تھی لیکن یہ اتنا بڑا گھاٹے کا سودا آخر کیوں کیا گیاہے؟
اس سوال کا ایک ہی جواب سامنے آتا ہے کہ پی آئی اے کو اس کی کارکردگی نہیں بلکہ اس کی بدانتظامی اور کرپشن نکل گئی ہے۔ آج نیلام ہونے والی اسی پی آئی اے نے امارات اور سنگاپور جیسی کامیاب ایئرلائنز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا تھا۔ خصوصی طور پر ایمریٹس ایئر لائن آج دنیا کی نمبر ون ایئرلائن ہے۔ دبئی کے ٹرمینل3 پر ہر منٹ بعد ایک جہاز اترتا اور چڑھتا ہے جبکہ دبئی (جبل علی) ہی میں دنیا کا ایک اور سب سے بڑا ایئر پورٹ زیر تعمیر ہے تاکہ امریٹس ایئرلائن کو مزید کامیابیوں کی بلندی تک پہنچایا جا سکے۔
پی آئی اے کی ٹرانزیکشن سے حکومت کو صرف 10 سے 12 ارب روپے ملیں گے حالانکہ تقریباً اتنا ہی پیسہ حکومت اب تک پی آئی اے کی نجکاری کیلئے کنسلٹنگ کمپنیوں اور اشتہارات کی مد میں خرچ کر چکی ہے۔ جبکہ باقی 125 ارب روپے کی رقم یعنی بولی سے حاصل رقم کا 92.5 فیصد حصہ پی آئی اے کی بہتری لانے پر ہی خرچ ہو گا۔ بعض تجزیہ کاروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دس بارہ ارب روپے کی رقم بھی کک بیکس اور کمیشن وغیرہ میں چلے جائے گی۔ مفتاح اسماعیل نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں آگے چل کر یہی کہا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دس بارہ ارب روپے تو حکومت کو ملیں گے مگر درحقیقت حکومت نے پی آئی اے کو 70 ارب روپے منفی میں بیچا ہے۔
مزید برآں ظلم در ظلم یہ ہوا ہے کہ فروخت کے معاہدے کی ایک شق کی روشنی میں پی آئی اے کے 25 فیصد حصص حکومت کے پاس رہیں گے، تاہم کامیاب بولی دہندہ اور خریدار کو اختیار ہو گا کہ وہ ادائیگی کے بعد باقی 25 فیصد حصص خرید لے یا انہیں حکومت کے پاس ہی رہنے دے۔ البتہ معاہدے کے تحت ایک سال تک کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا جا سکے گا۔ ملازمین کی پنشن اور مراعات مکمل طور پر محفوظ رہیں گی جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، طبی سہولتیں اور رعایتی ٹکٹوں کی ذمہ داری ہولڈنگ کمپنی اٹھائے گی جس سے پی آئی اے کے ملازمین کے ممکنہ غیض و غضب سے حکومت نے خود کو بچانے کی کوشش کی ہے۔
اس خریداری پر حبیب کنسورشیم کا پورا کچا چٹھا بھی کھل کر سامنے آ رہا ہے کہ یہ گروپ کرپشن اور دیگر بے ضابطگیوں میں کتنا بدنام ہے۔ جو مشکل کام پچھلی دو دہائیوں میں کوئی حکومت نہیں کر سکی تھی شہباز شریف حکومت نے وہ کام بھی کر دکھایا ہے۔ بقول شاعر، "سب چیزوں کے
سستے خواب ہمارے بیچ
بھوک ہوا پر ٹیکس لگا،
دریا بیچ، کنارے بیچ،
سب پر خرچہ آتا ہے،
سب بے کار ادارے بیچ
کچھ نہ بچے جب بکنے کو، خوش فہمی کے مارے بیچ۔”
اس سودے کا سارا ملبہ شہباز حکومت پر پڑ گیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کوئی بھی آنے والی حکومت آخر اپنی کارکردگی بہتر کرنے اور اداروں سے "کرپشن” ختم کرنے پر کیوں توجہ نہیں دیتی ہے؟ پی آئی اے جو کبھی دنیا کی واقعی نمبر ون ایئرلائن تھی اسے جان بوجھ کر کرپشن اور سفارشی بھرتیوں سے سفید ہاتھی بنایا گیا اور اب بلاآخر اسے بیچ دیا گیا ہے۔ اب کوئی ادارہ بکنے سے رہ تو نہیں گیا ہے؟ شائد اگلی باری ریلوے کی ہے۔ یہ ہائبرڈ نظام بہت آگے جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ سنا ہے پی آئی اے کے بعد کچھ ٹرینوں کی نجکاری کا عمل شروع بھی ہو گیا ہے۔
یہ ایک تلخ ترین حقیقت ہے "ادارے بیچنے” سے "خواب بیچنے” تک کا یہ سفر دراصل اس معاشی بے حسی کا نوحہ ہے جو اب رکتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا ہے جہاں عام آدمی کی زندگی صرف ٹیکسوں کی نذر ہو کر رہ گئی ہے۔ جب ریاست سہولت کی بجائے صرف "نیلامی” کا راستہ چن لے، تو پیچھے صرف خوش فہمیاں ہی باقی بچتی ہیں۔ پہلے بناؤ پھر بیچو۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) جو کبھی قومی ائیرلائن کہلاتی تھی اب قومی تو رہی نہیں ہے اور اب منصوبے بن رہے ہیں کہ باقی چند معتبر اداروں کب اور کس کو بیچنے ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |