انہماک و استغراق کی غیرمعمولی طاقت
انسان کے دماغ میں کمال کی لچک اور طاقت ہے۔ ہم ہر لمحہ مختلف کیفیات سے گزرتے ہیں۔ اگر ہم خیالات کو کسی ایک چیز یا نکتہ پر "فوکس” کرتے ہیں، اور اس پر ہہت زیادہ توجہ دیتے ہیں تو ہم پر اس کے بارے اسرار و رموز کا ایک نیا جہان کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم دماغ کو جو موضوع یا ٹاکس دیں دماغ میں اسی سے متعلق خیالات بادلوں کی طرح آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارا دماغ کسی ایک خیال یا کیفیت میں اس قدر گہرائی اور گیرائی میں چلا جاتا یے کہ غوروفکر کے دوران ہم دنیا و مافیہا سے بلکل کٹ جاتے ہیں۔
تاریخ کے بعض غیرمعمولی جینئس انسان ایسے غوروفکر کرنے کے لیئے تنہائی میں جایا کرتے تھے۔ اس قسم کی گہری سوچ اور خیالات کی آمد اور انتخاب کو "عبادت”، "مراقبہ” یا "رجوع” بھی کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں سوچنے کے اس مخصوص عمل کو "میڈیٹیشن” (تنہائی کا غوروفکر) کہا جاتا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ بچپن میں آپ عدسی شیشے (میگنی فائیینگ گلاس) سے سورج کی کرنوں کو گزار کر کاغذ کے ٹکڑوں کو جلایا کرتے تھے۔ اس وقت تو آپ کو اندازہ نہیں تھا کہ اس تجربہ سے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ممکن ہے تب آپ کے لیئے یہ محض ایک کھیل تماشا ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس میں تجسس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ شیشے کا عدسہ سورج کی ایک چھوٹی سے کرن کو مرتکز کر کے اس میں اتنی جادوئی طاقت بھر دیتا ہے کہ تھوڑی دیر تک اس ننھی کرن کو کاغذوں کے ٹکڑوں پر ڈالتے رہیں تو وہ اچانک جل اٹھتے ہیں۔ ممکن ہے اس ایک چھوٹے اور معمولی سے سائنسی تجربہ کی حقیقت کا آپ کو آج بھی علم نہ ہو کہ اس عمل کے پیچھے روشنی کی ننھی کرن اور کاغذ کے جلنے کے عمل کا اصل راز کیا ہے؟ دراصل روشنی کی اس معمولی کرن کی زبردست طاقت کا یہ مخفی راز عدسی شیشے کا اسے کاغذ کی ایک ہی جگہ پر "مرتکز” کرنے میں مفقود ہے۔
کینیڈا کی کوئینز یونیورسٹی کے پروفیسرز ڈاکٹر پوپین کے اور جولی ٹیسینگ نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ انسانی دماغ سے ہر روز اوسطاً 6200 تک خیالات ابھرتے ہیں۔ یہ دماغ میں آنے والے ان خیالات کے بارے تحقیق ہے جن کو شعوری طور پر انسان سوچتا ہے اور محسوس کرتا ہے۔ انگلینڈ میں ایک کتاب پڑھی تھی اس میں لکھا تھا کہ روزانہ ہمارے دماغ سے خیالات کا جو طوفان ٹکراتا ہے اس میں شامل خیالات کی کم و بیش تعداد 24000 ہے۔ حالانکہ ہر روز ہمارے دماغ میں آنے اور پیدا ہونے والے خیالات کی یہ تعداد بھی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عام انسانوں کا دماغ شعور، لاشعور اور تحت الشعور کی تین سطحوں پر سوچتا ہے، جس کی ہر سطح پر آنے والے تمام خیالات کا بیک وقت شمار کرنا ہمارے لیئے تقریبا ناممکن ہے۔
ایک لمحہ کے لیئے سوچیں کہ ہمارے دماغ کی ان تینوں سطحوں پر آنے والے تمام خیالات کو ہم ایک موضوع یا مقصد پر ارادی اور شعوری طور پر جمع یا مرتکز کر دیں تو ہمارے اندر اتنی تخلیقی قوت پیدا ہو سکتی ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ اس پر مستزاد ہمارے دماغ میں پائے جانے والے "نیورانز” (دماغی خلیات) کی حیرت انگیز تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس کے سامنے جتنے پوری کہکشاوں اور ستاروں پر ایٹمز ہیں وہ بھی کم ہیں۔ اس سے آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم دماغ کے ان تمام نیورانز کو ایک ہی "نکتہ” پر سوچتے ہوئے انہماک و استغراق کے دوران مرکوز کریں تو ہمارے سامنے دنیا و فیہا اور کائنات کے کیا کیا راز ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں، اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔
اور خوش قسمتی سے انسانی دماغ اپنی تمام قوت ایک مرکزہ و نکتہ پر مرتکز کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ خوبصورتی سے سوچنے، غوروخوض کرنے اور "یکسوئی” حاصل کرنے والا انسان اپنے دماغ سے حیرت انگیز نتائج حاصل کرتا ہے۔ انسانی دماغ کے نیورانز میں پوری کائنات کی طاقت مفقود ہے۔سوچنا بہت خوبصورت عمل ہے مگر اس سے بھی بڑے درجہ و مقام کی صفت "”فوکس”” کرنا ہے جو ہے تو سوچنے ہی کا عمل مگر اس کے ذریعے دماغ ایک وقت میں بہت سے خیالات پر غوروفکر کی بجائے صرف ایک ہی آئیڈیا پر توجہ مرکوز کرتا یے جس سے اس کے اندر زیادہ طاقت پیدا ہونے لگتی ہے۔
ہر انسان کی زندگی میں مسائل اور رکاوٹیں آتی ہیں، ان سے پریشان ہونے کی بجائے ان کے حل پر توجہ دینی چایئے جو کہ انہماک اور استغراق کا گہرا عمل ہے۔
ہماری زندگی کی کامیابی کا سارا دارومدار دماغ میں آنے والے ان ہزاروں لاکھوں خیالات کی ساخت اور نوعیت پر ہے اور اس کے بعد اس بات پر ہے کہ ہم ان لاتعداد خیالات میں سے کارآمد خیالات کی چھانٹی کر کے انہیں عملی جامہ کیسے پہناتے ہیں۔ ہماری دنیاوی اور روحانی کامیابی اور خوشی دراصل انہی خیالات کی مرہون منت ہے جن کو ہم کثرت سے توجہ دے کر عملی جامہ پہناتے ہیں۔
لوگوں کی اکثریت کے دماغ میں غیر مرتکز خیالات جنم لیتے ہیں۔ جس بناء پر دنیاوی و روحانی زندگی میں کامیابی و کامرانی ان کا مقدر نہیں بنتی ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ذہن سے ابھرنے والے ان خیالات کو کنٹرول کر لیا ہو، وہی دینی و روحانی زندگی میں کامیابی کے زینے طے کرتے ہیں۔
انسانی شخصیت میں مثبت و منفی رجحانات اور اخلاقیات و عادات کا پروان چڑھنا انہی خیالات کا مرہون منت ہے۔ کسی ایک طریق پر خیالات کے کچھ عرصہ تک بہاؤ سے وہ طریق ایک سافٹ ویئر بن کر لاشعور میں انسٹال ہو جاتی ہے اور یہ سافٹ ویئر ایک عادت یا وصف کا ڈرائیور بن جاتا ہے۔ حسد، لالچ، غصہ، ہوس، تکبر، بدگمانی اور مایوسی سب وہ عادتیں ہیں جو ان خیالات کے منفی بہاؤ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جس میں سے مسلسل مایوسی کی کیفیت خون کے خلیوں کی کیمیائی ترکیب تک بدل دیتی ہے۔
خیالات دراصل برقی سگنلز ہوتے ہیں۔ ہر خیال ایک مخصوص درجے کی انرجی خرچ کرتا ہے۔ ان الیکٹرک سگنلز کو اگر ایک سمت مل جائے تو زندگی میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ اگر خیالات منتشر رہیں تو یہ انرجی سے بھرپور الیکٹرک سگنلز ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک کاپر وائر میں فری الیکٹرانز ہر وقت بے ترتیب حرکت کرتے رہتے ہیں اور ان کی یہ حرکت بے سود رہتی ہے لیکن جیسے ہی سوئچ آن کیا جاتا ہے تو یہ ایک سمت میں بہنا شروع کر دیتے ہیں جس سے بہت زیادہ انرجی اور "روشنی” پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح جب ذہنِ انسانی کے ان لاتعداد خیالات میں سے ایک بڑا حصہ ایک سمت اختیار کر لیتا ہے تو خیالات کے اس یک طرفہ بہاؤ سے اتنی انرجی پیدا ہوتی ہے کہ انسان کو خود کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خیالات کے اس قسم کے ارتکاز عشقِ حقیقی کی صورت میں ایسے لوگوں کی رغبت خلوت اور گوشہ نشینی کی طرف ہو جاتی ہے اور عشق مجازی میں مبتلا لوگ طرح طرح کے نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
زندگی میں منفی اور غیرتعمیری خیالات کے تابع نہ ہوں بلکہ مثبت اور تعمیری سوچ کو اپنانا اپنا معمول بنا لیں جیسا کہ انبیاء اور ولی ریاضت و مجاہدہ کا طویل سفر طے کر کے غصہ کو محبت میں، لالچ و ہوس کو بے نیازی میں، حسد کو رشک میں، مایوسی کو امید میں، نفرت کو الفت میں، اور تکبر کو عاجزی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ گویا وہ عظیم ہستیاں اپنے خیالات پر کنٹرول حاصل کر لیتے تھے اور زندگی بھر منفی خیالات کی بیخ کنی کے ساتھ مثبت خیالات کی آبیاری کی تگ و دو میں رہتے تھے۔
دنیا سے کچھ عرصہ الگ تھلگ ہو کر اپنے خیالات کے بہاؤ کی سمت کو درست کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بکریاں چراتے اور اپنے رب کے بارے غوروفکر کرتے تھے۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام غاروں میں جا کر اپنے رب کے بارے سوچتے اور عشقِ الٰہی میں گریہ و زاری کرتے۔ حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر جاتے تھے۔ اسی طرح آقا محمد عربی ﷺ غار حرا میں جایا کرتے تھے۔ گویا انبیاء علیہم السلام اپنے خیالات و تصورات کو اللہ رب العزت کی بارگاہ کی طرف مرتکز کرنے کے لئے اس طرح کی یکسوئی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
ایک حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ ایک لمحہ کا غوروفکر دو جہانوں کی عبادت سے افضل ہے۔ زندگی اور آخرت کی کامیابی و کامرانی چاہتے ہیں تو سوچنا سیکھیں، اور اس کے بعد استغراق و انہماک پر عبور حاصل کریں۔ آپ کا زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق ہے آپ کو مقاصد پر فوکس کرنا آ گیا تو آپ کامیاب ہونگے۔ آپ کا استغراق اور سوچ و فکر آپ پر زندگی کا ہر ممکنہ دروازہ کھول دیں گے۔ انشاءاللہ۔
Title Image by Josep Monter Martinez from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |