27 ویں آئینی ترمیم اور سینیٹ میں سیاسی پوزیشن
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی *
پاکستان کے آئین میں ترمیم ایک نہایت حساس اور اہم عمل ہے، کیونکہ ہر ترمیم ملک کی سیاسی سمت اور حکومتی استحکام پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 239 کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں ایوانوں میں دو تہائی ارکان کی منظوری لازمی ہے۔ موجودہ صورتحال میں 27 ویں ترمیم کے لیے سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہیں جو آئینی ترمیم کے لیے قانونی حد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ نشستیں پیپلزپارٹی کے پاس ہیں یعنی (26)، اس کے بعد مسلم لیگ ن کے پاس 20 نشستیں ہیں۔ حکومتی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کی 4 نشستیں اور ایم کیو ایم کے 3 سینیٹرز بھی حکومتی بینچز کا حصہ ہیں۔ آزاد سینیٹرز کی شمولیت، جیسے کہ سینیٹر فیصل واوڈا، سینیٹ میں ووٹوں کی کل تعداد اور سیاسی توازن پر اثر ڈال سکتی ہے۔
اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے سینیٹرز سب سے زیادہ ہیں یعنی (14)، جبکہ اے این پی کی 3 اور جمیعت علمائے اسلام پاکستان کے 7 سینیٹرز بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مجلس وحدت المسلمین، سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان بھی اپوزیشن کی پوزیشن مستحکم کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
27 ویں ترمیم کے حوالے سے سیاسی مشاورت کا عمل بھی جاری ہے۔ حالیہ خبر کے مطابق سینیٹر فیصل واوڈا مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچے، جس میں ملکی سیاسی صورتحال اور ترمیم پر ممکنہ تعاون پر بات چیت ہوئی۔ یہ ملاقات اس بات کی علامت ہے کہ آئینی ترمیم کے معاملے میں سیاسی جماعتیں مختلف سطحوں پر رابطے اور مذاکرات کر رہی ہیں، تاکہ کسی ممکنہ اتفاق رائے تک پہنچا جا سکے۔
پاکستان کے آئینی تاریخ میں ترمیم کے عمل کو اکثر سیاسی مفاہمت اور حکومتی استحکام کے تناظر میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ سابقہ ترمیمات، جیسے کہ 18 ویں اور 21 ویں ترمیم، نے ملک کی سیاسی اور عدالتی نظام میں نمایاں تبدیلیاں کیں۔ ہر ترمیم کے دوران پارٹی پوزیشن، اتحادی تعلقات اور آزاد سینیٹرز کی حمایت کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ 27 ویں ترمیم بھی اسی تناظر میں اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ نہ صرف سینیٹ میں حکومتی اکثریت بلکہ آئینی استحکام پر بھی اثر ڈالے گا۔
27 ویں ترمیم کی قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں کے پیش نظر چند نکات اہم ہیں جن میں سرفہرست پارٹی پوزیشن اور ووٹ کا دباؤ ہے۔ حکومتی بینچز کے ارکان کی تعداد کافی نہیں، اس لیے آزاد سینیٹرز اور اتحادی جماعتوں کی حمایت لازمی ہے۔
دوسرا نکتہ سیاسی مشاورت کی اہمیت ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا کی ملاقات سے واضح ہے کہ ترمیم پر عمل درآمد کے لیے سیاسی مکالمہ اور لابنگ ضروری ہے۔
تیسرا نکتہ اپوزیشن کا کردار ہے۔ اپوزیشن بینچز کی تعداد اور حمایت یافتہ آزاد ارکان حکومتی ترمیم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، اس لیے سیاسی توازن اور مفاہمت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
27 ویں ترمیم نہ صرف آئینی لحاظ سے اہم ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی سیاست میں بھی اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ سینیٹ میں پارٹی پوزیشن، آزاد ارکان کی حمایت اور سیاسی مذاکرات کی کامیابی ہی اس ترمیم کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ہر ترمیم میں سیاسی گفت و شنید اور مفاہمت اہم کردار ادا کرتی ہے اور 27 ویں ترمیم بھی اس روایت کو برقرار رکھنے کا امکان رکھتی ہے۔
Title Image by Markus Winkler from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |