روبر و ہے ادیب: سید حبدار قائم
تحریروملاقات: ذوالفقار علی بخاری
حوصلہ افزائی آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
جناب حبدار حسین شاہ جو کہ سید حبدار قائم کے نام سے معروف ہیں۔آپ 1987سے ادب عالیہ اور ادب اطفال سے وابستہ ہیں۔آپ کی نو کے قریب کتب منظرعام پر آچکی ہیں جن میں نماز شب (نثر)، حضرت رحمت اللہ شاہ رح بخاری المعروف چھانگلا ولی موج دریا کی سیرت (نثر)، اکھیاں وچ زمانے (پنجابی نثر)،مدح شاہِ زمن (پہلا شعری نعتیہ مجموعہ)، صبح نعت دوسرا نعتیہ مجموعہ 2024، انتقادات و تاثرات (نعتیہ کتابوں پر تبصرے) 2024، ارتسام خیال (کتابوں پر تبصرے)2024، روحِ جمال نعتیہ مجموعہ2025، شامل ہیں۔
بچوں کے لیے تقریباََپچیس کہانیاں اورپندرہ نظمیں شائع ہو چکی ہیں۔آپ کوکئی اداروں کی جانب سے ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین راجن پور، غازی یونیورسٹی۔ڈیرہ غازی خان کے شعبہ اردو کی طالبہ ماہا فاروق نے سید حبدار قائم کے نعتیہ مجموعہ’مدحِ شاہِ زمن‘ پر تحقیقی مقالہ بھی لکھا ہے۔ اِس مقالے کی نگران لیکچرر ار نوشابہ قنبر تھیں۔
زیر نظرمصاحبہ میں جناب سید حبدارقائم سے اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے جو آپ کویقینی طور پر محظوظ کرے گی۔
س۔ آپ کو کب علم ہوا کہ آپ کے اندر ایک تخلیق کار بیدار ہو چکا ہے اوراْسے منظرعام پر لانا چاہیے؟
ج۔ 1985 کے بعد جب میں نے علی احمد تبسم کی کہانی پڑھی تو مجھے خیال آیا کہ میرے گاوں غریبوال کا بندہ کہانیاں لکھ رہا ہے تو کیوں نہ میں بھی لکھوں۔ چناں چہ میں نے ایک ناقابل فراموش واقعہ لکھا اور ماہنامہ سلام عرض کی طرف بھیج دیا۔جس کو انہوں نے شائع کیا تو میرے دوستوں نے پسند کیا۔اس پزیرائی نے مجھے مزید لکھنے پر ابھارا اور یوں میں آج نو کتابوں کا مصنف بن گیا۔
–
س۔ پہلی تخلیق کب اور کہاں شائع ہوئی؟
ج۔ پہلی تخلیق کی درست تاریخ مجھے یاد نہیں، لیکن قیاس ہے کہ 1987 میں شائع ہوئی۔
اولین کتاب، نظم اورمضمون پر پذیرائی کو آج کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج۔ میری پہلی کتاب ”نمازِ شب“ ہے جسے روزنامہ اساس میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ میر اابتدائی کلام بے وزن تھا جس کی اصلاح توکل سائل مرحوم سے لیتا تھا۔در اصل میں نثر نگار تھا اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتا تھا۔اگر ماہنامہ ”سلام عرض اور جواب عرض“ میری کہانیاں شائع نہ کرتے تو آج میں لکھاری نہ ہوتا۔
–
س۔بطور ادیب مطالعے،مشاہدے اورتجربات کو کس قدر اہم سمجھتے ہیں؟
ج۔ دیکھیں جی۔ مطالعہ مشاہدے اور تجربے کو قرطاس پر لانے کی کنجی ہے۔ اگر مطالعہ نہیں تو آپ کی تحریر کس طرح کاغذ کا سینہ منور کر سکتی ہے۔
–
س۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ادیبوں کے لیے حوصلہ افزائی آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے؟
ج۔ جی۔میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں حوصلہ افزائی آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ لیکن مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ ادیب حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور اس معاملے میں کنجوسی کرتے ہیں۔
–
س۔ہمارے ہاں علاقائی سطح پر ادیبوں کو جو پذیرائی دی جا رہی ہے،کیا اْس سے مطمئن ہیں؟
ج۔ علاقائی سطح پر ادیبوں کی پارٹی بازیاں ہیں، مشاعروں میں بھی داد سٹیٹس اور من پسند افراد کو ہی دی جاتی ہے۔ میرے اپنے شہر میں بھی صدارت اور مہمانِ خصوصی کا اعزاز وکیلوں اور سیاسی لوگوں کو دیا جاتا ہے، اس لیے میں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔
–
س۔آپ جب نعت لکھ رہے ہوتے ہیں تو روحانی طور پر خود کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
ج۔ جب نعت لکھتا ہوں تو یوں محسوس کرتاہوں جیسے حضور ﷺمیرے سامنے تشریف فرما ہوں اور میں سامنے دو زانو ہو کر بیٹھا ہوں اور نعت لکھ رہا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ میری کسی نعت میں حضورﷺ کو تْو، تیرے، تم یا تمہارے کے الفاظ سے مخاطب نہیں کیا جاتا۔بل کہ آپ کہ کر مخاطب کرتا ہوں۔بہت سارے دوست شعرا میری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور بہت بڑے شعرا کی مثالیں دے کر مجھے سمجھاتے ہیں۔لیکن میرا دل نہیں مانتا کہ حضورﷺ سامنے ہوں اور میں انہیں تم کہ کر مخاطب کروں اور یہ میرا ذاتی خیال اور عشق ہے۔
–
س۔آپ بیک وقت اردو اور پنجابی زبان میں لکھ رہے ہیں، کس صنف میں لکھتے ہوئے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں؟
ج۔ دیکھیے جس شعر میں دل کی بات اور ذبات ہوں تو لکھتے وقت رونا آ جاتا ہے۔میں نے بچوں کے لیے ایک کہانی ”چینی والی روٹی“ لکھی ہے۔ اب تک جس جس کو سنائی ہے میرے ساتھ وہ بھی رو پڑا ہے۔ میں جتنی دیر یہ کہانی لکھتا رہا، ہر لفظ کے ساتھ روتا رہا، اصل میں کردار جیسا تخلیق کیا جائے ویسا ہی اس کا پہلا ری ایکشن اپنے آپ پر ہوتا ہے۔
–
س۔کسی بھی زبان کا فروغ کیا ادب اطفال کے بغیر ممکن ہے؟اِس کے لیے کن اقدامات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
ج۔ بچوں کا ادب بنیادی سیڑھی ہے جو والدین فراہم کرتے ہیں۔علاقائی زبانوں کا ادب نشوونما پا کر قوم کے دھارے میں اتر کر نکھرتا ہے۔ میرے خیال میں والدین اور اساتذہ دونوں کوشش کریں تو یہ فروغ پا سکتا ہے۔
–
س۔دورحاضرکے ادب اطفال سے کس قدر مطمئن ہیں؟
ج۔دورِ حاضر میں بچوں کے ادب پر سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے، کیوں کہ اس میں ادیب کو واہ واہ نہیں ملتی۔ لیکن میرے خیال میں بچوں کے ادب کو نظر انداز کرنا مجرمانہ غفلت ہے۔حکومت کو اس پر سنجیدہ ہو کر کوشش کرنی چاہیے تاکہ لکھاری بچوں کا ادب بھی تخلیق کریں۔
–
س۔بطور ادیب کیا سمجھتے ہیں کہ ایسے کون سے عوامل ہیں جنھوں نے بچوں کو رسائل اور کتاب سے دور کیا ہے؟
ج۔ والدین کا رویہ اہم کردار ہے۔ وہ بچوں کو وقت نہیں دیتے،وقت کی جگہ موبائل تھما دینا ہی بچوں کے ادب کا قتل ہے۔ اگر گھر میں بچوں کے لیے کتب اور رسائل رکھے جائیں تو بچے خود بخود ان کی طرف مائل ہوں گے۔
–
س۔کتاب میلے کی اہمیت آپ کی نظر میں کیا ہے؟
ج۔ کتاب میلہ اْسی وقت اہم کردار ادا کر سکتا ہے جب اس کی راہ گھر سے بچوں کے لیے ہموار کی جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ سکولوں سے جبراً بچے اٹھا کر میلے میں لائے جاتے ہیں جو کتابیں دیکھ کر فوٹو شوٹ کر کے چلے جاتے ہیں اور کتاب نہیں خریدتے ہیں۔میں نے میلے میں یہ بھی دیکھا ہے کہ سرکاری افسران کی چہل پہل صرف فوٹو شوٹ، فیتا کاٹنے اور میڈیا کو انٹرویو دینے تک ہوتی ہے۔اگر حکومت سنجیدہ ہو کر کتاب بینی کو فروغ دینا چاہتی ہے تو ادیبوں کو اہمیت دیں اور ان کو کتاب شائع کرانے کے لیے مناسب فنڈ مہیا کریں۔میں نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ کتاب میلے میں اعلان ہو کہ ڈی سی نے کتاب لکھنے والوں کی مدد کی ہو بس مفت کتابیں لے کر رفوچکر ہو جاتے ہیں۔
–
س۔والدین کی کن خوبیوں کے معترف ہیں؟
ج۔ والدین کا کردار بہت اہم ہے۔میرے والد صاحب گھر میں کتابیں لاتے تھے جن کو پڑھ کر میں نے بہت کچھ سیکھا۔
–
س۔آپ فرصت کے لمحات کو کیسے گزارتے ہیں؟
ج۔ فرصت کے لمحات میں کتاب پڑھ کر وقت گزارتا ہوں۔
–
س۔آپ کے مجموعے پرتحقیقی کام بھی کیا گیا ہے،آپ کے خیال میں تخلیقات پر تحقیقی کام ہونا کیا ادیبوں کو تاریخ میں امر کرتا ہے؟
ج۔جی۔۔۔میرے نعتیہ مجموعہ ”مدحِ شاہِ زمن“ کا تجزیاتی مطالعہ برائے سیشن 2020۔2024 پر بی ایس لیول کا تھیسز لکھا گیا ہے۔جس کی نگران مطالعہ مس نوشابہ قنبر تھیں اور یہ ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی کی طالبہ ماہا فاروق نے لکھا ہے۔تخلیقات پر تحقیقی کام کی اہمیت تب ہی ہو سکتی ہے جب یہ تھیسز شائع کر کے مارکیٹوں اور اداروں تک پہنچایا جائے۔عموماً ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ اس کی ایک کاپی تیار کر کے یونیورسٹی میں جمع کروا دی جاتی ہے اور شاعر کو نہیں دی جاتی،ہونا تو یہ چاہیے کہ جب طالب علم کو سند دی جائے تو ادیب کو بلا کر تھیسز کی ایک کاپی اور سند دی جائے کیوں کہ داد و تحسین پر اس کا بھی حق ہے۔
–
س۔زندگی کا کوئی ایسا دل چسپ واقعہ ہے جس نے سوچ کادھارا بدلا ہو؟
ج۔ میرے شہر میں اکثر ادیب میرے اشعار کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ جس سے میں پریشان ہونے کی بہ جائے مطالعہ کرتا رہا اور آگے بڑھتا رہا اور محنت کرتا رہا۔ جس کی وجہ سے میرا اللہ مجھے سرخرو کرتا گیا اور آج میں نو کتابوں کا مصنف ہوں جن میں تین نعتیہ شاعری کے مجموعے ہیں اور چھ نثری کاوشیں ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ میرا مذاق کرنے والوں کی ابھی تک کوئی کتاب نہیں چھپی۔
–
س۔نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرنے کے لیے نجی اورسرکاری اداروں کو کیا کرنا چاہیے؟
ج۔ سرکاری اداروں کو پولیس افسران، انتظامیہ اور اشرافیہ کو اسٹیج پر نہیں بٹھانا چاہیے۔اسٹیج کی زینت جب ادیب بنیں گے تو ادیب کو عزت ملے گی۔ آج کل غیر ادیب لوگوں کو سٹیج پر بٹھا کر ادیب کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ نوجوان نسل اسی وقت مثبت سرگرمیوں کا حصہ بنے گی جب اسے ادیبانہ ماحول ملے گا۔
–
س۔معاشرے میں ادیبوں کا مقام کس طرح سے بلند کیا جا سکتا ہے؟
ج۔جہاں علم و حکمت کی بات ہو جہاں قلمْ کتاب اور دوات کی بات ہو وہاں صرف ادیبوں کو سٹیج پر بٹھانا چاہیے اور جب ادیب محفل میں آئے تو اشرافیہ کو کھڑے ہو کر اس کا ادب کرنا چاہیے ایسا کرنے سے قوم سیکھ سکتی ہے۔
–
س۔مستقبل کے ارادے کیا ہیں؟
ج۔ جو کتابیں ابھی تک شائع نہیں ہوئیں،ان کو شائع کرنے کی کوشش کروں گا۔ پنجابی شاعری اور ایک نثر کی کتاب لکھنے کا ارادہ ہے۔ ان شاء اللہ
–
س۔قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہئیں گے؟
ج۔ قارئین کو میرا سلام دے دیجیے اورپیغام بس یہی ہے کہ اسلام کے ساتھ جڑے رہیں۔ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے پیش آئیں پاک وطن سے وفا کریں اور خصوصاً ایک دوسرے کے ساتھ رواداری سے پیش آئیں۔
۔ختم شد۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |