پارس سے پارسائی تک
میں پارس نامی پتھر سے متعلق بچپن ہی سے متجسس رہا ہوں یہ ایک خیالی پتھر ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر یہ لوہے سے چھو جائے تو اسے سونا بنا دیتا ہے. اس تمثیلی پتھر کے بارے میں یوں بھی کہتے ہیں کہ پارس جس چیز کو بھی چھو لے وہ سونے کی بن جاتی ہے مگر خود پارس پتھر کا پتھر رہتا ہے۔ اس کے اصطلاحی مفہوم میں "پارس” مٹی کے بنے ہوئے اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچا کر ان کی زندگیوں کو بدل دیتا ہے۔
درحقیقت پارس ایک خاص قسم کے پتھر کے ایک ایسے ٹکڑے کو بھی کہا جاتا ہے جو جواہرات کو پرکھنے کی کسوٹی کے طور پر کام آتا ہے۔ پارس کے بارے میں بہت سی کہانیاں بھی زبان زد عام ہیں کہ جس کی تلاش میں قدیم زمانے کے بادشاہ نکلتے تھے۔ جہاں انہیں اطلاح ملتی تھی کہ اس علاقے میں پارس پایا جاتا ہے تو وہ وہاں لشکر لے کر پہنچ جاتے تھے، اور پھر اس کے حصول پر جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ لیکن ہم عام انسانوں کو یہ بھی سوچنا چایئے کہ پارس تو ایک عام انسان بھی ہو سکتا ہے جس کے اندر اچھی خوبیاں ہوں اور وہ دوسروں کے لیئے ہمیشہ کارآمد ثابت ہوتا ہو جس کے بارے میں ایک حدیث نبوی ﷺ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ، "تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔”
میرے سمیت پارس ہمارے ہاں سب کو اس لیئے بھی اچھا لگتا ہو گا کہ یہ سونا بنانے کے کام آتا ہے۔ پارس کی ایسی خیالی کہانیاں ہمارے تخیل اور جاگتے کے خوابوں کو چھوتی ہیں اور ہماری ان ادھوری خواہشوں کی نفسیاتی اور عارضی تکمیل بھی کرتی ہیں جو حقیقی زندگی میں کبھی پوری نہیں ہو سکتی ہیں یا اگر پوری بھی ہوں تو ہمیں پارس کی اس کسوٹی اور معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے جو ایک خوبیوں والے انسان کے اصلی جوہر کو نمایاں کرتا ہے۔ ایسے مثالی انسان کے اوصاف اچھے ہوتے ہیں، وہ دوسروں کی خدمت کرتا ہے، ان کے کام آتا ہے اور انہیں خوشیاں فراہم کرتا ہے۔
یہ جون سنہ 2020ء کی بات ہے کہ جب ایک عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک کان کن اور بھیڑ بکریاں چرانے والے لائزر نامی آدمی کو تنزانیہ کے شمالی پہاڑوں میں کھدائی کے دوران دو ایسے قیمتی پتھر ملے جو دنیا کے مہنگے ترین پتھر تھے۔ ان قیمتی ترین پتھروں کا نام "تنزینائٹ جیم” رکھا گیا۔ ان کا چمک دار نیلا اور بنفشی رنگ دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔ ایسے پتھر ہیرے سے بھی 1000 گنا قیمتی ہیں کیونکہ پوری دنیا میں ان کے قدرتی ذخائر کی ایک ہی کان موجود ہے۔ جب وزن کیا گیا تو ملنے والے دونوں پتھروں کا وزن 15 کلوگرام تھا۔ تنزانیہ کی تاریخ میں اتنے بڑے قیمتی پتھر کبھی نہ ملے تھے۔ پھر کیا تھا کہ وزارتِ معدنیات نے یہ دونوں پتھر 3 اشاریہ 3 ملین امریکی ڈالرز میں خرید لیئے۔ یوں اک غریب مزدور ایک ہی دن میں امیر انسان بن گیا۔
شاید اس عام سے چرواہے لائزر نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ صرف ایک ہی دن اس کی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی لے کر آئے گا۔ پھر آخر اس نے ایسا کیا کارنامہ کیا کہ اس کے گاوں سمیت ملک بھر سے اس کے لیئے تعریفوں کے پھول برسائے جانے لگے؟ وہ چرواہا غربت میں بھی شادیاں کرنے کا شوقین تھا، اس کے 30 بچے بھی تھے لیکن اس نے بچوں کی کفالت کے لیئے بلکل معمولی سی رقم رکھی اور بقیہ رقم سے اس نے انسانیت کی خدمت اور فلاحی کام کرنے کا ارادہ باندھ لیا جہاں سے اس کی سچی کہانی ایک مزید خوبصورت موڑ لیتی ہے جس کے بارے دی گارڈین نے اپنی اکتوبر 2020ء کی ایک رپورٹ میں لکھا کہ لائزر امیر ہونے کے بعد بھی عاجز اور سخی دل دکھائی دیا۔ اس نے عیاشی کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ وعدہ کیا کہ وہ اپنی دولت سے گاو’ں کے لوگوں کی بھلائی کرے گا۔
ایک دن اس چرواہے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا: “یہ دولت مجھے خدا نے دی ہے مگر میں وہی عام انسان رہوں گا جو پہلے تھا۔” لائزر نے تقریبا 600 طلباء کے لیئے ایک مفت اسکول تعمیر کروایا۔ وہ چاہتا تھا کہ امیر بچوں جیسی تعلیم غریبوں کو بھی مل سکے۔ اس نے اپنی بیش بہا دولت کو نیکی کے کاموں کے لیئے مختص کیا۔ اس نے 200 سے زائد گائیں ذبح کر کے سارے گاوں کو دعوت دی۔ صدر جان ماگوفولی نے اپنے ٹی وی پیغام میں لائزر کو مبارک باد دی۔ اس نے گاوں میں اک بڑا شاپنگ مال بنا کر بے روزگاروں کو نوکریاں دیں۔ اسے حکومتی سطح پہ تعریفوں اور اسناد سے نوازا گیا۔
ایک کہانی یہ بھی مشہور ہے کہ ایک بزنس مین نے ایک بار جنوبی افریقہ سے ایک بہت بڑا ہیرا خریدا جو تقریباً انڈے کی زردی کے برابر تھا مگر اُس ہیرے کے اندر ایک دراڑ تھی۔ وہ ایک ماہر جیولر کے پاس گیا تاکہ کوئی مشورہ لے سکے۔ جیولر نے غور سے ہیرے کو دیکھا اور کہا: "اس ہیرے کو دو مکمل اور خوبصورت جواہرات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جن کی قیمت اصل ہیرے سے بھی زیادہ ہو گی۔ لیکن اگر ایک ضرب بھی غلط لگ گئی تو یہ ٹکڑوں میں بکھر جائے گا، اور بیکار ہو جائے گا۔ ہیرے کا مالک یہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ وہ دنیا بھر کے مختلف جیولرز کے پاس گیا۔ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ "یہ کام بہت خطرناک ہے۔” آخرکار کسی نے اُسے ایمسٹرڈیم کے ایک بوڑھے کاریگر کے بارے میں بتایا جسے "سنہری ہاتھوں والا” کہا جاتا تھا۔ وہ فوراً وہاں پہنچا۔ بوڑھے جیولر نے ہیرے کو اپنے عدسے سے بغور دیکھا اور پھر وارننگ دی کہ خطرہ بہت زیادہ ہے۔ بزنس مین نے اُسے ٹوکا: "یہ جملہ میں پہلے بھی سن چکا ہوں۔
میں تیار ہوں۔ بس تم اپنا کام شروع کرو۔” اس جیولر نے مسکرا کر سر ہلایا، قیمت طے کی، اور اپنے قریب کام کرتے ایک نوآموز لڑکے کی طرف متوجہ ہوا۔ لڑکے نے ہیرے کو اپنی ہتھیلی پر رکھا، ایک ہی وار کیا، اور وہ ہیرا صاف، درست اور مکمل دو بے عیب جواہرات میں تقسیم ہو گیا۔ بغیر اوپر دیکھے، اُس نے دونوں پتھر استاد کے حوالے کر دیئے۔ حیران بزنس مین نے پوچھا: "یہ تمہارے ساتھ کب سے کام کر رہا ہے؟” بوڑھا جیولر مسکرایا: "یہ اُس کا تیسرا دن ہے۔ یہ ابھی ہیرے کی اصل قیمت نہیں جانتا۔ اسی لیئے اُس کا ہاتھ نہیں کانپا۔”
دنیا کے ہر انسان کے اندر قدرت اس قیمتی ہیرے سے بھی زیادہ مختلف النوع قیمتی صلاحیتیں اور خوبیاں رکھتی ہے۔ اگر وہ صلاحیتیں اور خوبیاں دوسرے انسانوں کے کام آنے لگیں تو انسان اس تنزانی جیم سے بھی زیادہ قیمتی وہ "”پارس” بن جاتا ہے جو جسے چھوتا ہے وہ اسے سونا بنا دیتاہے لیکن خود مٹی کا بنا ہوا انسان کا انسان ہی رہتا ہے۔ کبھی کبھی ہم جس چیز کو کھونے سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں، اُسی کے بارے میں درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ زندگی کے چیلنجز کو ہلکا سمجھنا چایئے۔ اگر ہم غربت میں بھی اس چرواہے کی طرح خود کو قائم رکھیں تو ہمارا ہاتھ خود بخود مضبوط ہوتا جائے گا، اور جب ہم یہی کام انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیئے کریں گے تو دنیا ہمیں ہمیشہ یاد رکھے گی کہ "پارسائی” اصل میں تزکیہ نفس کر کے دوسرے عام انسانوں کے کام آنے اور انہیں سونے جیسا بنانے کا کیمیائی عمل ہے تاکہ معاشرے میں ان کی قدروقیمت بڑھے اور وہ بھی خوش و خرم زندگی گزار سکیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |