مجیب الرحمٰن کی تصویر کیا ہٹی ، بنگلہ دیش کی تقدیر بدلی
تحریر محمد ذیشان بٹ
نوٹ صرف کرنسی کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ ایک نظریہ، ایک علامت، ایک قومی بیانیہ بھی ہوتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں قومی ہیروز، مصلحین اور بانیانِ ریاست کی تصاویر ان نوٹوں پر چھاپی جاتی ہیں جنہیں قومیں اپنے نظریاتی ورثے کا محافظ سمجھتی ہیں۔ پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر نوٹوں پر چھپتی ہے تو بھارت میں گاندھی کی، امریکہ میں مختلف صدور اور ترکی میں کمال اتاترک کی۔ نوٹوں پر کسی شخصیت کی تصویر لگانا صرف ایک جمالیاتی یا رسمی عمل نہیں بلکہ ریاستی طور پر یہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ شخصیت اس ملک کی بنیاد، شناخت اور نظریاتی سمت کی نمائندہ ہے۔ لیکن اگر کبھی کوئی ریاست خود ہی اس شخصیت کو نوٹوں سے مٹا دے، تو سمجھ لیجیے کہ اس ملک کے بیانیے میں زلزلہ آ گیا ہے۔ یہی کچھ آج کل بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے۔
حال ہی میں بنگلہ دیش کی عبوری مگر مکمل طور پر خود مختار حکومت نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس نے نہ صرف خود بنگلہ دیش بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن، جنہیں بنگلہ دیش میں نصف صدی سے "بابائے قوم” مانا جاتا رہا، جن کی تصاویر کرنسی نوٹوں سے لے کر اسکولوں کے نصاب تک ہر جگہ چھاپی جاتی تھیں، اور جن کے یوم پیدائش پر قومی تعطیل دی جاتی تھی، اب وہی شیخ مجیب اس ریاستی بیانیے سے بتدریج نکالے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی قدم نہیں، بلکہ ایک نظریاتی انقلاب ہے۔
نئے کرنسی نوٹوں سے شیخ مجیب کی تصویر ہٹا دی گئی ہے اور اس کی جگہ ہندو مت، جین مت اور بنگلہ دیش کے مختلف ثقافتی، تاریخی اور مذہبی مقامات کی تصاویر کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ اقدام صرف ایک شخصیت کو ہٹانا نہیں بلکہ قومی شعور کی نئی تشکیل کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش اب اپنے ماضی کے اس بیانیے سے نکلنا چاہتا ہے جس میں بھارت کی مدد سے حاصل کردہ آزادی کو عظمت سمجھا جاتا تھا، اور اس کے بجائے اب ایک ایسے خود مختار اور غیر جانب دار ملک کے طور پر خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے جو صرف کسی ایک قوم یا مذہب کا ترجمان نہ ہو۔
اس سارے عمل کی قیادت نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محمد یونس کر رہے ہیں جنہیں نئی عبوری حکومت نے قومی فکری اصلاحات کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ڈاکٹر یونس کا کردار اب محض اقتصادی ماہر کا نہیں رہا، بلکہ وہ ایک نظریاتی رہنما کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ انہوں نے بنگالی قوم کو اس الجھاؤ سے نکالنے کی کوشش کی ہے جس میں پچاس سال سے یہ قوم محصور تھی۔ ان کے بقول، "قومیں صرف ماضی کے مجسموں پر سر رکھ کر نہیں چل سکتیں، انہیں مستقبل کی راہوں پر نظریاتی روشنی کے ساتھ بڑھنا ہوتا ہے۔”
ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں بنگلہ دیش نے صرف کرنسی نوٹ ہی نہیں بدلے بلکہ شیخ مجیب الرحمٰن کے یوم پیدائش کو بھی قومی تعطیلات کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ نصاب میں ان کے کردار کو محدود کر دیا گیا ہے، اور سرکاری عمارتوں سے ان کے مجسمے اور تصاویر کو ہٹانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنگلہ دیش اب اپنے بانی کے اس کردار پر سوالات اٹھا رہا ہے جو نصف صدی سے مقدس سمجھا جاتا تھا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستانی بیانیے کو نئی زندگی ملی ہے۔ پاکستان پچاس برسوں سے یہی کہتا آ رہا ہے کہ 1971 کا المیہ محض ایک مقامی تحریک کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک بین الاقوامی سازش تھی جس میں بھارت نے کھلم کھلا مداخلت کی، اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں اتاریں، اور شیخ مجیب الرحمٰن جیسے کرداروں کو استعمال کر کے پاکستان کو دولخت کیا۔ اس وقت پاکستان کی بات کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ دنیا کا جھکاؤ بھارت اور سوویت اتحاد کی طرف تھا، اور پاکستان کو ایک فوجی ریاست سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج جب بنگلہ دیش خود اپنے "بابائے قوم” کو کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہے، تو گویا پاکستان کا موقف درست ثابت ہو رہا ہے۔
شیخ مجیب الرحمٰن کا بیانیہ، ان کی سیاسی حکمت عملی، اور بھارت کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ پر بنگلہ دیش میں جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں وہ دراصل پاکستان کے مؤقف کی گونج ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب بنگلہ دیش بھارت کی "جیب کی گھڑی” اور "ہاتھ کی چھڑی” نہیں رہا۔ یہ نظریاتی خود مختاری کی طرف پیش رفت ہے۔ حسینہ واجد کا طویل آمرانہ اقتدار، جو کہ طلبہ تحریک کے ذریعے قائم ہوا تھا، اب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ نئی قیادت نے جس جرات مندی کے ساتھ اپنے بیانیے کو ازسرنو ترتیب دینا شروع کیا ہے، وہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے سبق آموز ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں محض علامتی نہیں، بلکہ گہرائی میں اتر کر دیکھی جائیں تو ایک فکری بغاوت ہے۔ ایک ایسی بغاوت جو بھارت کے اس خواب کو چکنا چور کر رہی ہے کہ بنگلہ دیش اس کا دائمی اتحادی اور نظریاتی حلیف رہے گا۔ نئی حکومت کے اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش اب اپنی خارجہ پالیسی اور داخلی بیانیے دونوں میں نئی بنیادوں پر استوار ہونا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر یونس نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ بنگلہ دیش کو ایک سیکیولر، معتدل اور غیر جانبدار ریاست کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے گا جو صرف بھارت یا چین کا حلیف نہیں بلکہ خود ایک خود مختار قوت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں پاکستان کے پالیسی سازوں کو ایک نئے زاویے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر بنگلہ دیش بھارت کے اثر سے نکل کر ایک نئے بیانیے کی طرف بڑھ رہا ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔ سفارتی، معاشی اور تعلیمی روابط کے دروازے کھولے جائیں۔ ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرتے ہوئے ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھی جائے۔ اگر پاکستان آج بنگلہ دیش کے ساتھ ایک غیر جانبدار، برابری پر مبنی اور نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والا تعلق استوار کرتا ہے تو یہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک نئی مثال بن سکتی ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ پاکستان عالمی برادری کے سامنے اپنا بیانیہ نئے اعتماد سے پیش کرے۔ یہ باور کرایا جائے کہ 1971 میں جو کچھ ہوا وہ صرف سیاسی غلطیاں نہیں تھیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم بین الاقوامی سازش کارفرما تھی۔ اور آج جب بنگلہ دیش خود اپنے بانی کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہا ہے تو یہ عالمی ضمیر کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ پاکستان کی بات کو سنے، سمجھے اور تسلیم کرے۔
جنوبی ایشیا کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ یہ خطہ کب تک ماضی کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا اور کب ایک نئی فکری آزادی کی طرف بڑھے گا۔ بنگلہ دیش نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے، اب دوسرے ممالک پر ہے کہ وہ کب اپنی آنکھیں کھولتے ہیں۔ یہ محض ایک تصویر ہٹانے کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک صدی کے بیانیے کی ازسرنو تدوین ہے۔ شیخ مجیب نوٹوں سے غائب ہو چکے ہیں، اب تاریخ کے صفحات میں ان کا مقام بھی ازسرنو لکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ امید، تدبر اور نئی سفارتی حکمت عملی اپنانے کا ہے۔ جو قومیں اپنے زخموں سے سبق سیکھ لیتی ہیں، وہی قومیں تاریخ کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اور شاید اب وہ وقت آ گیا ہے۔

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |