دن تے گن، میں مر جانا ای
آخر کو تجمل کلیم مر گئے
آہ
23 مئی 2025ء کی صبح بردارم شہزاد ڈوگر کے وٹس ایپ اسٹیٹس سے پتا چلا پنجابی زبان کے مقبول شاعر جناب تجمل کلیم سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے۔ مرحوم سے فیس بک کی حد تک دوستی رہی۔ ان کا کلام سادہ اور عام انداز میں بہت جان دار تھا۔ معمولی باتوں کو سلیقے سے برتنے کا ہنر جانے کہاں سے سیکھا تھا۔ تجمل کلیم کی شاعری نوحہ ہے اس معاشرے کا۔ چھوٹی بحر میں عام بول چال کی زبان کو شعری روپ میں ڈھالنا ان کا خاصہ رہا۔ وہ کسی موذی مرض کا شکار تھے اور جناح اسپتال لاہور میں زیرِ علاج تھے۔ مرحوم تجمل کلیم کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی۔ ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ واپڈا نے ان کے گھر سے بجلی کا میٹر کاٹ لیا۔ انھوں نے مشکل حالات میں رقم جمع کروائی اور بیماری کی وجہ سے جناح اسپتال داخل ہوئے۔ان کی زندگی کا انت بھی ویسے ہی ہوا جیسے ہمارے ہاں تخلیق کاروں کا ہوتا ہے کسمپرسی کی حالت میں سرکاری اسپتال کے بستر بھی آخری سانس لی۔کہتے ہیں جب واپس آیا تو چار دن بعد دوبارہ میٹر کاٹ لیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی شہر چونیاں میں بعد از نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی۔
مرحوم تجمل کلیم کے لیے استاد محترم ڈاکٹر عابد سیال صاحب کے الفاظ دیکھیں:
"یہ نام ہی جمال اور قادرالکلامی کی آمیزش سے بنا ہے، یہی دو خصوصیات اس البیلے اور گہرے شاعر کے شعر کا بڑا وصف ہیں۔
تخلیقی ادب کے معاصر پارکھ کو اصول نقد وضع کرتے ہوئے ایسے شاعروں کا کہا دھیان میں رکھنا چاہیے۔ یہ وہ اسلوب ہے جس کا علاقہ محض ایک زبان تک محدود نہیں، بلکہ اس سے اوپر اٹھ کر ’’شاعری کی زبان‘‘ کا اعجاز دکھاتا ہے۔
ذاتی ملاقات نہیں تھی پر ہمیشہ شوق اور توجہ سے ان کو دیکھا، سنا، اور پڑھا، اس نگاہ سے جس سے ایک طالب علم ہنر کے ایک ادارے کو دیکھتا ہے۔
ان کے جانے کا دکھ ہے لیکن بڑی زندگی جینے کے لیے لمبی عمر جینا لازمی نہیں، یقین آتا ہے۔
اپنے تمام تر اعزاز کے ساتھ ایک بڑا شاعر فانی دنیا سے ہمیشگی کی دنیا کی طرف جاتا ہے۔ سلام !”
تجمل کلیم شاعروں کے اس قبیلے سے تھے جو دل سے لکھتے تھے اور ان کا کلام سیدھا دل پر اثر کرتا تھا۔ انھوں نے پنجابی ادب کو اپنی خوب صورت شاعری سے ثروت مند بنا دیا۔سہل ممتنع کی حامل ان کی یہ غزل جس میں کرب واضح طور پر ملتا ہے۔
دن تے گِن ،میں مر جانا ای
تیرے بِن، میں مر جانا ای
میں گُڈی دے کاغذ ورگا
توں کِن مِن ،میں مر جانا ای
جیہڑے دن توں کَنڈ کرنی اے
اوسے دن ،میں مر جانا ای
میرے قد نوں تول ریہا ایں
تول نہ، مِن میں مر جانا ای
جان دی بولی لا دتی اُو
اک دو تِن ، میں مر جانا ای
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ان کی کامل کامل مغفرت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے ۔ آمین
احقر: فرہاد احمد فگار

ڈاکٹر فرہاد احمد فگار کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد(لوئر چھتر )سے ہے۔ نمل سے اردواملا اور تلفظ کے مباحث:لسانی محققین کی آرا کا تنقیدی تقابلی جائزہ کے موضوع پر ڈاکٹر شفیق انجم کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔کئی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ بہ طور کالم نگار، محقق اور شاعر ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ لسانیات آپ کا خاص میدان ہے۔ آزاد کشمیر کے شعبہ تعلیم میں بہ طور اردو لیکچرر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کالج میگزین بساط اور فن تراش کے مدیر ہیں اور ایک نجی اسکول کے مجلے کاوش کے اعزازی مدیر بھی ہیں۔ اپنی ادبی سرگرمیوں کے اعتراف میں کئی اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔آپ کی تحریر سادہ بامعنی ہوتی ہے.فرہاد احمد فگار کے تحقیقی مضامین پر پشاور یونی ورسٹی سے بی ایس کی سطح کا تحقیقی مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے جب کہ فرہاد احمد فگار شخصیت و فن کے نام سے ملک عظیم ناشاد اعوان نے ایک کتاب بھی ترتیب دے کر شائع کی ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |