قانون اور ادب کے میدان میں بہرائچ کا درخشندہ ستارہ: پروفیسر طاہر محمود
قانون اور ادب کے میدان میں بہرائچ کا درخشندہ ستارہ: پروفیسر طاہر محمود
جنید احمد نور،بہرائچ
9648176721
سر زمین سید سالار مسعود غازیؒ شہر بہرائچ قدیم زمانے سے علم و فن کا مرکز رہا ہے اور خون ِشہداکی برکتوں اوراولیاء اللہ کے قدوم سے فیضیاب ہوتا رہا ہے۔ بہرائچ سے تعلق رکھنے والے قاضی شمس الدین سلطان ناصر الدین محمودکے عہد میں دہلی سلطنت کے قاضی مملکت تھے اور سید اجمل شاہ سلطنت شرقی جونپور کے صدر جہاں ۔اس طرح بہرائچ کا تعلق قدیم زمانے سے قوانین کی تشریح کرنے والوں سے رہا ہے اور آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری اور ساری ہے۔اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہمارے شہر بہرائچ سے تعلق رکھنے والے ممتازماہر قانون پروفیسر طاہر محمودصاحب ہیں ۔آپ قومی اقلیتی کمیشن کے چیرمین،لاکمیشن آف انڈیا کے ممبراوردہلی یونیورسٹی کی لافیکلٹی کے ڈین رہ چکے ہیں اور قانون کی درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جن کے حوالے سپریم کوٹ آف انڈیا اور دیگر اعلٰی عدالتوں نے اپنے متعدد فیصلوں میں دئے ہیں۔
پروفیسر طاہر محمود صاحب کے والد ماجد مرحوم سید محمود حسن بہرائچ کے مشہور و معروف وکیل اور ملٗی رہنما تھے۔آپ ۶ ستمبر۱۹۴۱ کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔اردو ،عربی،فارسی،انگریزی اوردینیات کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ پھر آزاد کالج اور گورنمنٹ انٹر کالج میں پڑھائی کی۔ بہرائچ کے تین مشہور شاعر ساغرؔ مہدی, شاعر ؔجمالی اور اظہار ؔوارثی آپ کے بچپن کے دوست تھے۔ آپ نے لکھا ہے کہ’’طالب علمی کے زمانے میں میری تگ و دو بیحد محدود تھی، گھر سے اسکول اور واپس گھر۔عموماً پیدل آتے جاتے شہر کے تاریخی گھنٹہ گھر کے اندر سے گزر ہوتا تھا۔ والد مرحوم علیٰ الصباح ہواخوری کے لیے جھینگا گھاٹ جایا کرتے تھے جس میں اکثر میں بھی ساتھ ہوتا تھا۔ گھر کے ایک طرف جامع مسجد تھی اور دوسری طرف مسجد فاطمہ۔ روزانہ فجر اور مغرب کی نمازوں کے لیے اس چھوٹی مسجد اور جمعے کی نماز کے لیے جامع مسجد جانا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار والدبزرگوار کے ساتھ درگاہ شریف جانا ہوتا تھا اگرچہ انھیں یا مجھے اس سے کوئی عقیدت نہیں تھی۔ گورنمنٹ کالج کے سامنے ایک وسیع میدان تھا جہاں نمائش لگتی تھی اور مشاعرے بھی ہوتے تھے، وہاں بھی جانا ہوا کرتا تھا۔ شعروشاعری سے دلچسپی بچپن سے تھی اور والدہ کے انتقال پر میں نے اپنی پہلی نظم کہی تھی۔شہر کے معروف مزاح نگار شاعر جناب شوقؔ بہرائچی میرے والد کے منشی رہے تھے اور جناب شفیقؔ بریلوی آزاد کالج کے پرنسپل تھے جب کہ میرے والد اس کے مینیجر تھے۔ ان دونوں بزرگوں نے میرے ادبی رجحان اور شاعرانہ ذوق کو بہت متاثر کیا۔ ہائی اسکول کے بعد میری تعلیم لکھنؤ اور گورکھپور میں ہوئی۔۱۹۶۰ءمیں وکالت پاس کرکے بہرائچ آیااورجناب بسنت رائے بھنڈاری سے وکالت کی ٹریننگ لی۔لیکن مجھے وکالت سے کہیں زیادہ شعر و ادب میں دلچسپی تھی اور انھیں دنوں میں نے ایک نعتیہ مشاعرے کی نظامت کی تھی۔جگرؔمرادآبادی کے انتقال کی خبر آئی تو سید واڑے میں واقع امام باڑے میں "شام جگر” منعقد کی جس کی نظامت بھی خود ہی کی تھی۔ ‘‘ قانون کی اعلی تعلیم کیلئے آپ علی گُڑھ اور لندن گئے۔وطن واپسی پر دہلی میں سکونت اِختیار کی اور شہر کےمختلف اداروں میں درس وتدریس اورتعلیم و تحقیق میں مشغول رہے۔ ساتھ ہی حکومت ہند کے پانچ اداروں قومی اقلیتی کمیشن،قومی حقوق انسان کمیشن،جسٹس رنگناتھ مشرا مشراکمیشن،لا کمیشن آف آندیا اور قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اب ۲۰۰۳ سے ایمیٹی یونیورسٹی میں اپنے قائم کردہ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ لیگل اسٹدیز کے چیرمین کے طور پرتدریس و تحقیق میں مصروف ہیں۔
آپ نے اردو اور انگریزی زبانوں میں قانون کے مختلف پہلووں پر معتدد کتابیں لکھی ہیں اور ممتاز اخبارات میں دونوں ہی زبانوں میں مسلسل مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔ آپ کی کتابوں کے حوالے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اور دیگر کئی اعلی عدالتوں نے متعدد فیصلوں میں دئیے ہیں۔اردو زبان میں آپ کی کتابوں کے عنوانات یہ ہیں:
۱۔ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کا مسئلہ (۱۹۷۲)
۲۔ حیات محمود (۱۹۷۷)
۳۔ دل کی حکائتیں(۱۹۹۸)
۴۔جرأت رندانہ(۲۰۰۱ء)
۵۔تازہ ہیں میرے واردات (۲۰۰۵)
۶۔قصۂ درد سناتے ہیں (۲۰۰۹)
۷۔ ہم دشت میں دیتے ہیں اذاں (۲۰۱۱)
۸۔کس سے منصفی چاہیں (۲۰۱۹)
۹۔ میرا جنون اردو (۲۰۲۴)
اس کے علاوہ الاحسان اکیڈمی بہرائچ کی جانب سے آپ کی یہ تصانیف برقی کتب ( E-Book) کے طور پر شائع ہوئی ہیں:
۱۔ قصّۂ چہار درویش
۲۔سفرنامۂ بہرائچ
۳۔چمنستان بہرائچ(وطن پدری کو نثری و شعری خراج عقیدت)
آپ کو مختلف اداروں نے اعزازات سے سرفراز کیا ہے جن میں اسلامی قانون میں غیر معمولی خدمات کےلئے شاہ ولی اللہ انٹرنیشنل اوارڈ, مذہبی آزادی کے فروغ میں ممتاز کارناموں کیلئے امریکہ کا ایک بین الاقوامی اوارڈ, بیسٹ لا ٹیچر آف انڈیا اوارڈ اور قانون اورمعاشرے کے روابط پر علمی وتحقیقی کاموں کیلئےایشیاٹک سوسائٹی کا گولڈ میڈل ایوارڈ شامل ہیں۔
۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۳ کوآپ نے بہرائچ میں عبرتؔ بہرائچی مرحوم پر سفیان انصاری صاحب کی کتاب کا اجراء کیا اور اس موقع پر الاحسان اکیڈمی کی جانب سے آپ کو سپاسنامہ پیش کیا گیا ۔
آپ نے اپنے شہر بہرائچ کو یاد کرتے ہوئے کئی نظمیں کہی ہیں جن کے منتخب اشعار حسب ذیل ہیں۔
(۱)
مری حیات کا ہر پل عطائے بہرائچ
مرے دکھوں کا مداوا دوائے بہرائچ
اودھ کی شام بنارس کی صبح ہو صدقے
کہ اک جہاں سے جدا ہے ادائے بہرائچ
قُدومِ سیّد سالارؒ کا خزینہ ہے
ہے نور حق سے منوّر فضائے بہرائچ
ہے علم و فن کی روایات کا امیں یہ شہر
ادب نواز ہے یارو ہوائے بہرائچ
میں راجدھانی میں رہ کریہیں تو سوتا ہوں
ہے روز لوری سناتی نوائے بہرائچ
(۲)
نیپال کی سرحد پہ وہ اک بزم مزیّن
وہ شہر اودھ سیٗدِ سالار کا مدفن
درگاہوں کا تکیوں کا مساجد کا وہ گلشن
ارواح سعیدہ کے مزارات کا مسکن
اس شہر کے اک گوشے میں وہ اپنا نشیمن
اس کے درودیوار وہ دالان وہ آنگن
خوشبو سے مہکتے ہوئے کمروں کی سجاوٹ
دروازوں پہ آویزاں وہ تہذیب کی چلمن
وہ نور میں ملبوس بزرگوں کی نمازیں
شفقت بھرے لہجوں کا برستا ہوا ساون
یادوں کے جھروکوں میں سجا آج تلک ہے
آغوش میں اس گھر میں گزارا ہوا بچپن
اسی طرح آپ دیگر مواقع پر اپنے جذبات کو منظومات کی شکل میں رقم کرتے ہیں جس کے چند نمونے یہ ہیں:
رحمت حق کے کرشمے ہیں مری تقدیر میں
نصرت خیر البشر شامل مری تدبیر میں
جرأت رندانہ بخشی ہے مجھے اللہ نے
مصلحت کوشی نہیں ملتی مری تحریر میں
پرانی قدروں پر ہم گامزن ہیں
غنیمت ہے کہ سرگرمِ سخن ہیں
ہمارے بعد ڈھونڈیں گے ہمیں سب
ہم اپنی ذات سے اک انجمن ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |