عدیل اکبر کی مایوس کن اور غیرطبعی موت
جاپان کے قصبے اوشنو کے آتش فشاں پہاڑ فیوجی کے قریب 30کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا خودکشی نام کا ایک جنگل ہے جسے جاپانی زبان میں "اوکی گاہارا” کہا جاتا ہے۔ یہ جنگل سنہ 864ء کا ہے جب اس علاقے میں واقع یہ فیوجی نامی آتش فشاں پہاڑ لاوا اگلنے کے لئے اچانک پھٹ پڑا تھا۔ جب لاوا آہستہ آہستہ سرد ہوا تو وہاں پودے سر نکالنے لگے اور پھر آنے والے برسوں میں اسی جگہ پر ایک گھنا جنگل اگ آیا، جسے ایک مقدس جنگل کی حیثیت حاصل ہو گئی اور کئی جاپانی وہاں جا کر اس کی پوجا کرنے لگے۔
بدقسمتی سے 1970 کے عشرے میں اس جنگل سے کچھ مہم جو لکھنے والوں کا گزر ہوا جنہوں نے وہاں کچھ خوبصورت انسانی لاشیں دیکھیں اور ان پر ناول لکھے جس کے بعد اس موضوع پر فلمیں اور ٹیلی ویژن سیریز بننے لگیں جن میں خودکشی کے مناظر کو سہانے انداز میں فلمایا گیا تھا۔ اچانک کسی مصنف کی قوت تخیلہ نے اس جنگل کو خودکشی کے لئے ایک مثالی مقام بنا کر پیش کیا جس کے بعد جاپانیوں کا وہاں جا کر خودکشی کرنے کا رواج پڑ گیا۔ اس وجہ سے آج جاپان دنیا بھر میں خودکشیاں کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر ہے جہاں ہر سال اوسطا 20ہزار افراد خودکشی کرتے ہیں۔ گذشتہ سال 2024ء میں بھی 25ہزار جاپانیوں نے خود کشی کی۔ خودکشی کے لیئے اس جنگل کا رخ کرنے والوں میں غیرملکی بھی شامل ہیں۔ وہاں جا کر خودکشی کرنے والوں کی اکثریت اپنی جان خود لینے کو خوشی اور نجات کا ذریعہ، اور بعض اسے اپنے لیئے باعث فخر بھی سمجھتے ہیں لیکن دنیا کے کسی بھی دوسرے عقیدے یا فلسفے میں موت کو زندگی سے بہتر قرار نہیں دیا گیا ہے۔
زندگی قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے مگر اس کے منفی پہلو مثبت پر حاوی ہوتے ہیں اور ان میں آگ کی تاثیر ہوتی ہے۔ یونانی فلسفی سقراط کے بارے زہر کا پیالہ پی کر خودکشی کرنے کی کہانی بھی "من گھڑت” جس میں شہرت اور نمائش کے لیئے زندگی کی منفی سوچ کو ابھارا گیا ہے۔ حالانکہ اپنی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث سقراط نے اخیر عمر میں دیوتاوں کے حقیقی وجود سے انکار کر دیا تھا، جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں اسے موت کی سزا سنائی تھی۔ ناکہ سقراط نے خود زہر کا پیالہ پی کر خودکشی کی تھی۔ جبکہ سقراط نے زہر کا پیالہ پینے سے پہلے یہ بھی نہیں کہا تھا کہ، "میں ایک ادنی اور کمتر جہان سے ایک اعلی اور برتر جہان کی طرف جا رہا ہوں۔” اس سارے قصے کو افلاطون نے اپنے استاد کو فقط امر کرنے اور زیب داستان کے لیئے کھڑا تھا۔
سقراط کے شاگرد افلاطون کی کتابوں "فاٹون” اور "اپولوجیا” میں سقراط کی موت کا ذکر ملتا ہے۔ ان دونوں تصانیف میں سقراط کی موت کی تفصیلات اور اس وقت کی گفتگو سے بحث کی گئی ہے جو "ڈرامہ” کی شکل میں ہے۔ فاٹون سقراط کی موت والے دن کا مکالمہ ہے، جبکہ اپولوجیا جیل میں سقراط کی آخری گفتگو اور مقدمے کی کارروائی بیان کرتی ہے، جس کے نتیجے میں اسے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ دونوں کتابیں اس دور کی روایت کے مطابق افلاطون کے روایتی اور فلسفیانہ تخیل کا نتیجہ ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اسے منفی انداز میں "گلیمیرائز” کیا گیا ہے۔ اسے آپ ڈرامہ یا فکشن تو کہہ سکتے ہیں مگر ان کا حقیقت نگاری سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے سقراط کی خودکشی سے جوڑا جا سکے۔ دنیا کا ایک عظیم ترین دانشور اور فلسفی اپنے آخری وقت میں زندگی کے مقابلے میں خودکشی کر کے موت کی وکالت کیسے کر سکتا ہے؟ موت کا خود انتخاب کرنا دنیا کے کسی بھی نظریہ کی روشنی میں دانشمندانہ فعل نہیں ہے۔ خودکشی انسان کی حماقت اور کم عقلی کا مظہر یے جو ہر لحاظ سے آپ کی بے ہمتی اور عدم برداشت کو ظاہر کرتی ہے۔ خود کشی کرنے والے اپنے پیچھے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کی توہین کرنے کی داستان چھوڑ جاتے ہیں، جس کی بدنامی اور شرمندگی کی سزا اس کے بے گناہ لواحقین کو بھی بھگتنا پڑتی ہے۔
زندگی جتنی بھی اذیت ناک ہو موت سے بہرکیف بہتر ہوتی ہے کیونکہ اگلی زندگی بھی اسی موجودہ زندگی ہی سے جڑی ہوتی ہے۔ یعنی، آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی کا تسلسل ہے۔ اگر آپ دنیا میں خود کشی کرتے ہیں جو کہ زندگی کو اپنی مرضی سے ختم کرنے کا فیصلہ ہے تو آپ آخرت کی زندگی حاصل کرنے کے حق سے خود ہی محروم ہو جاتے ہیں۔
جاپان جہاں ریکارڈ خودکشیاں ہوتی ہیں اور جہاں خودکشی کرنے کا یہ مقدس جنگل بھی ہے، اسی جنگل کے داخلی دروازے پر انمول زندگی کا پیغام دینے والے سوشل ورکرز بھی ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ ان نیک اور درد دل سوشل ورکرز کو جاپانی زبان میں "کوچی” کہتے ہیں۔ ان کے بازو میں ایک بورڈ نصب ہوتا ہے جس پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ زندگی آپ کے والدین کی جانب سے آپ کو دیا جانے والا ایک قیمتی تحفہ ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہاں سکون سے بیٹھ کر اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں اور اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں۔ آپ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیئے جب تک زندہ ہیں کچھ سال مزید جیئیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں اس نمبر پر فون کریں۔ یہ سوشل ورکر خودکشی کرنے والوں کو جاپانیوں کی لمبی عمریں یاد دلاتے ہیں جہاں پوری دنیا سے زیادہ 90 سال کی عمر کے بوڑھے رہتے ہیں، جو کامیاب اور خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ ان کی "برین واشنگ” کرتے ہیں اور انہیں زندگی کی طرف پلٹنے کا ایسا خوشنما خواب دکھاتے ہیں کہ خودکشی کے ارادے سے آنے والوں میں بہت سے لوگ ان کو دعائیں دیتے ہوئے واپس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
جنگل کے مین گیٹ پر بہت سے رضاکار کوچی کئی سالوں سے گٹار بجا رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ موت کا سکوت توڑنے کے لئے زندگی کا راگ بجاتے ہیں۔ واقعی، زندگی ایک حسین راگ ہے جس سے وہی لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں جو اس کے رنگوں اور سروں کی قیمت اور مٹھاس کو سمجھتے ہیں۔ زندگی کو حسین اور پرلطف طریقے سے جینے کا مطلب زندگی کی ہر مشکل اور ہر امتحان کو چیلنج سمجھ کر شکست دینا ہے۔ ایسا صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو زندگی کے بارے میں مثبت اور تعمیری رویہ اپناتے ہیں۔ اگر آپ زندگی کو منفی اور غیرتعمیری سوچ کے ساتھ گزارنے کے عادی ہیں تو کوئی معمولی سی رکاوٹ، دکھ یا مشکل بھی آپ کو اندر سے توڑ دے گی۔
اسلام آباد کے ایس پی عدیل اکبر کی خودکشی اس کی تازہ مثال ہے جس نے مایوسی سے شکست کھا کر "حرام” موت کو گلے لگایا اور ہمیشہ کے لیئے جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ کاش کہ اسے بھی کوئی کوچی ملا ہوتا۔ ان جیسے لوگ زندگی کا سب کچھ ہونے کے باوجود مایوسی کی کافرانہ اور غیرطبعی موت مرتے ہیں۔ موت کے خلاف ایسے مثبت رویئے کا مظاہرہ وہی ہمت اور برداشت والے لوگ کرتے ہیں جو زندگی کے ہر غم اور کٹھن مرحلے کو بھی "حکمت” اور "دانش” کا ذریعہ سمجھ کر جیتے ہیں۔ مشکلات، دکھوں اور مسائل سے لڑنا آ جائے تو ان سے بھی بھرپور طور پر خوشی کشید کی جا سکتی ہے۔ پرامید اور جاگتے کے خواب دیکھنے والے لوگ مایوسی اور غموں کی وجہ سے زندگی کا خاتمہ نہیں کرتے کیونکہ وہ ہر حال میں جینے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ تقدیر اور توکل پر بھروسہ کرتے ہیں، یہ جان کر کہ ایک روز ان کی ارادی خودکشی کا جنگل پھر سے عبادت کی مقدس جگہ بن جائے گا، وہ خود کو اتنا بدلیں گے کہ جن کے پاس ایک روز خودکشی کے متمنی لوگ زندگی کا درس لینے آئیں گے۔ زندگی اور موت کا اختیار صرف قدرت کو ہے، اگر آپ زندگی کی فطری تخلیق نہیں کر سکتے تو اسے زبردستی ختم بھی نہ کریں، اسی میں آپ کی فلاح ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |