پہلے صادق خان اور اب ظہران ممدانی
اس خبر کو کالم بنانے کا ارادہ نہیں تھا لیکن ظہران ممدانی کی تاریخ ساز کامیابی کے ڈھیر سارے پہلو ایسے ہیں کہ جو ہم جیسی ترقی پذیر اور مقروض قوم کے لیئے سیکھنے کا بہت سارا سامان لیئے ہوئے ہیں۔مقروض تو امریکہ بھی ہے جس کا کل سرکاری قرضہ 38 ٹریلئین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ یعنی اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے۔ اس کے باوجود وہاں تعلیم، انصاف، بصیرت و آگاہی اور عوامی جمہوریت کی اتنی زیادہ طاقت ہے کہ امریکی صدر اور اسٹیبلشمنٹ، اس کی حکومت، اس کے خفیہ ادارے، اس کی پولیس، اس کی انتظامیہ، اس کی حکمران جماعت کی اکثریت، اس کی سینٹ، ایلون مسک جیسے کھرب پتی تاجروں کی بے رحم مخالفت اور اس کا پورا میڈیا اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار ظہران ممدانی کو نیویارک کا میئر بننے سے نہیں روک سکے ہیں۔ لندن کے میئر صادق خان کی طرح نیویارک کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی بھی مسلمان ہیں۔ جب وہ اپنی وکٹری سپیچ کے لیئے سٹیج پر آئے اور جونہی انہوں نے یہ قابل فخر الفاظ کہے کہ، "میں مسلمان ہوں اور میں اس شناخت پر شرمندہ نہیں ہوں۔” تو پورا ہال کھڑا ہو گیا اور وہاں تالیوں کی گونج تادیر سنائی دیتی رہی۔
امریکی جمہوریت کی طاقت ہی کا یہ اعجاز ہے کہ جس نے ایک 33 سالہ نوجوان جو امیگرنٹ فمیلی سے تعلق رکھتا ہے اسے نیو یارک کا میئر بنا دیا۔ ایسے ہی 2024ء میں صادق خان تیسری بار لندن کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھی برطانیہ میں امیگریشن لینے والے خاندان سے ہے۔ لندن کے میئر صادق خان ایک پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں۔ ان کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے جو برطانیہ کے بادشاہ چارلس کی جانب سے نائٹ ہڈ یعنی "سر” کا خطاب لے چکے ہیں۔ ماضی میں اسی صادق خان نے زیک گولڈ سمتھ کو شکست دی تھی جو ایک پکا یہودی ہے اور عمران خان کا سالا ہے۔ لندن کے پہلے پاکستانی نژاد مسلم میئر صادق خان نے گذشتہ برس ریکارڈ تیسری بار میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ہرچند کہ لندن کے مضافاتی علاقوں میں ٹوری یعنی کنزرویٹو کا زور بڑھا تھا تاہم انھوں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ صادق خان کی جیت کا مارجن 275,000 ووٹوں کا تھا اور انھیں کل ووٹوں کا 44 فیصد حصہ ملا تھا جو کہ سنہ 2016 میں پہلی بار حاصل کردہ کامیابی کے برابر تھا
اسی طرح اب نیویارک کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی نے اپنے مدمقابل نیویارک کے سابق گورنر کو شکست دی۔ اس الیکشن میں گزشتہ 25 سال کا ٹرن آوٹ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ پورا دن پولنگ سٹیشنز پر بڑی تعداد میں ووٹر موجود رہے۔ 20 لاکھ سے زائد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ظہران ممدانی کا پورا نام ظہران کوامے ممدانی ہے۔ وہ سنہ 1991ء میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمود ممدانی یوگنڈا نژاد سیاست کے ماہر پروفیسر رہے۔ ظہران اپنے خاندان کے ساتھ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی رہے ہیں لیکن جب وہ 7 سال کے تھے تو خاندان کے ساتھ نیو یارک آ گئے۔ انھوں نے نیویارک کے علاقے برونکس میں پرورش پائی وہیں سے انھوں نے ‘افریکانا سٹڈیز’ میں گریجویشن کیا اور فلسطینیوں کے حقوق کے لئے سرگرم ہو گئے۔ سنہ 2024ء میں ان کی شادی شامی نژاد امریکی آرٹسٹ راما دواجی سے ہوئی۔ ظہران نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور "فورکلوزر پریوینشن کونسلر” کام کیا جس کا مطلب ایک ایسا مشیر ہے جو غریب خاندانوں کو گھروں سے قرض کی وجہ سے جبری بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتا ہے اور جس کا اثر ان کی عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی سیاست پر واضح ہے۔ سنہ 2020ء میں انھوں نے نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے لئے انتخاب لڑا اور دس سال تک جیتنے والے رکن کو شکست دے دی۔ وہ ریاستی اسمبلی میں منتخب ہونے والے پہلے جنوبی ایشیائی مرد، پہلے یوگنڈا نژاد اور صرف تیسرے مسلمان بنے۔
میئر کے الیکشن کے لئے ظہراج ممدانی کی مہم میں نیویارک کے عام لوگوں نے کافی دلچسپی دکھائی کیونکہ انھوں نے ایسے مسائل اٹھائے جو کہ نیویارک جیسے مہنگے شہر کے عام لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ظہران کی میئرشپ کی مہم بنیادی طور پر ایک سوشلسٹ نظریہ پیش کرتی تھی جس میں انھوں نے شہر میں رہائش، نقل و حمل اور کھانے کی سہولیات کو زیادہ منصفانہ بنانے کا وعدہ کیا۔
ممدانی کی نیویارک میں فتح صرف ایک انتخابی کامیابی نہیں، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی جڑوں میں ہلچل پیدا کرنے والی فکری بیداری کی علامت ہے۔ وال اسٹریٹ کے سائے میں ایک سوشلسٹ کی جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی عوام کے ایک طبقے نے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، مہنگائی، اور استحصال کے خلاف بغاوت کا شعوری آغاز کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے انہیں “کمیونسٹ” کہہ کر خوف کی سیاست کھیلنے کی کوشش کی، مگر عوام نے اس بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے انصاف، برابری، اور سماجی تحفظ کے نظریے کو ترجیح دی۔ یہ تبدیلی صرف نیویارک تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ اس عالمی رجحان کا پیش خیمہ ہے جو بتدریج سرمایہ داری کے بت کو گرانے اور انسانیت پر مبنی معیشت کی نئی بنیاد رکھنے جا رہا ہے۔
ظہران جنوبی ایشیا کی مٹی سے اٹھا، مشرقی افریقہ کے سفر سے گزرا، اور امریکہ کی دھرتی پر پروان چڑھا۔ آج نیویارک جیسے شہر کا میئر منتخب ہوا ہے۔ یہ خبر صرف ایک سیاسی فتح نہیں بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ جب خواب سچے ہوں، تو سرحدیں، رنگ، نسل، زبان اور دھرتیاں شکست کھا جاتی ہیں۔
پاکستانی سیاست دانوں کی طرح اس نے نظام کو گالیاں نہیں دیں۔ اسی نظام میں رہکر، اصولوں کو سمجھ کر، لوگوں کا اعتماد جیت کر، اسی نظام کی قیادت چھین لی۔ یہی اصل سیاسی بلوغت ہے۔ یہ وہ “پختہ سوچ” ہے جو قومیں صدیوں میں پیدا کرتی ہیں۔ اور یہی امریکہ کے نظام کی اصل عظمت ہے جو دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہونے کے باوجود دنیا کی بلاشرکت غیرے "سپر پاور” ہے جہاں تنقید بھی ہوتی ہے، مذاق بھی اڑایا جاتا ہے، راہ میں روڑے بھی اٹکائے جاتے ہیں لیکن آخری فیصلہ عوام کرتی ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |