افغانوں کی تاریخی غلطیاں
افغانی تاریخ پاکستان کے خلاف پرخاش سے بھری پڑی ہے۔ آج جب افغانستان یہ کہتا ہے کہ، "پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیکر افغانستان سے دھوکہ کیا”، تو اس کے پیچھے افغانستان کی بردار مسلم ملک پاکستان سے بے وفائی کے وہ تاریخی حقائق چھپے ہوئے ہیں، جن کی بناء پر افغانستان حتی المقدور پاکستان کو ہمیشہ نیچا دکھانے کی کوشش کرتا چلا آیا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت افغانستان وہ واحد ملک ثابت ہوا تھا جس نے 1947ء میں پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
گو کہ پاکستان کی حالیہ سٹریٹیجک سٹرائیکس کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کبھی کوئی مکمل جنگ نہیں ہوئی، مگر تنازعات، جھڑپوں اور پراکسی لڑائیوں کا سلسلہ دہائیوں سے جاری رہا ہے، جو اکثر برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ جیسی بیرونی طاقتوں کی وجہ سے آج بھی جاری ہے۔ یہ تنازعات سرحدی ابہامات اور اراضی کے دعوؤں سے جڑے ہوئے ہیں، جبکہ تعاون کے ادوار صرف تجارت، سلامتی اور علاقائی استحکام تک محدود رہے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ سنہ 1893ء کا معاہدہ ہے جو برطانوی سفارت کار مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغان امیر عبدالرحمٰن خان نے طے کیا تھا۔ یہ معاہدہ پشتون قبائلی علاقوں کو تقسیم کرتا ہے تاکہ روس کی توسیع کے خلاف ایک بفر بنایا جا سکے۔ افغانستان نے اسے کبھی مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ افغانستان آج بھی اسے عارضی نوآبادیاتی مسلط کردہ معاہدہ سمجھتا ہے۔
ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2,640 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو برطانوی ہندوستان اور امارت افغانستان کے درمیان قائم کی گئی تھی۔ اس لائن کے تعلقات گہرے نسلی، ثقافتی اور لسانی رابطوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر اس سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے پشتون پٹھانوں کے درمیان مسلسل کشیدگی، علاقائی تنازعات اور وقفے وقفے سے ہونے والی جنگوں نے بھی اس بفر لائن کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ڈیورنڈ لائن کی وراثت پر اعتراض کرتے ہوئے 1948-49 میں، افغان حمایت یافتہ پشتون باغیوں نے میرزلی خان کی قیادت میں باجوڑ اور دیر پر قبضہ کیا، جسے "وزیرستان بغاوت” کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے فوجی آپریشنز سے جواب دیا، جو پاک افغان کے درمیان پہلی براہ راست جھڑپیں تھیں۔ 1955 میں، پاکستان کی "ون یونٹ” پالیسی پر، جو پشتون علاقوں کو مغربی پاکستان میں ضم کرتی تھی، کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر افغان ہجوم نے حملہ کیا۔ پاکستان نے پشاور میں افغان قونصل خانہ بند کر دیا اور تجارت روک دی، جس سے 1963ء میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات منقطع رہے۔ پختونستان دعوؤں کی جڑوں کے ساتھ، یہ کم شدت کی جھڑپیں تھیں لیکن انہوں نے باغیوں کی پراکسی حمایت کا نمونہ قائم کیا۔
سنہ 1960-61 کی دہائی میں باجوڑ اور بہاولپور مہمات ہوئیں جب افغانستان نے پشتون علیحدگی پسندوں کو ہتھیار دیئے، جس سے باجوڑ مہم شروع ہوئی جہاں پاکستانی فوج نے حملوں کو پسپا کیا۔ اقوام متحدہ میں "پختونستان” پرچم کے مباحثوں نے تناؤ بڑھایا، جو توپ خانے کے تبادلے تک جا پہنچا۔ سنہ 1961-63 میں سفارتی تعلقات دوبارہ منقطع ہوئے۔ 1963ء کے "رن آف کچھ” معاہدے سے مختصر نرمی آئی، لیکن جھڑپیں 1971 کی پاک-بھارت جنگ تک جاری رہیں، جب افغانستان غیر جانبدار رہا۔ سنہ 1970ء کی دہائی میں داؤد خان کا دور سوویت یونین کے حملے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ افغان صدر محمد داؤد خان (1973-78) نے، سوویت حمایت سے، پاکستان میں بلوچ اور پشتون علیحدگی پسندوں کی مدد تیز کی، جس میں ہتھیاروں کی سمگلنگ شامل تھی، جو 1970ء کی دہائی کے پاکستانی شورشوں کے دوران تعلقات کو مزید کشیدہ کرتی رہی۔ سنہ 1979 تا 1989 سوویت افغان جنگ رہی جس کی پراکسی حرکیات نے سوویت یونین حملے کے خلاف پاکستان کو ایک "فرنٹ لائن” ریاست بنا دیا۔ اس دوران پاکستان 30-40 لاکھ مہاجرین کی میزبانی کرتا رہا اور مجاہدین جنگجوؤں کا اڈہ بنا رہا۔ اگرچہ یہ براہ راست پاک-افغان جنگ نہ تھی، لیکن پاکستان کی آئی ایس آئی نے امریکی مالی امداد سے سوویت فوجوں کے خلاف آپریشنز ترتیب دیئے۔ سرحد پار چھاپے عام تھے، لیکن اس دور میں مشترکہ دشمن کے خلاف غیر مستقیم تعاون کیا گیا۔ 1990ء کی دہائی آئی۔ طالبان کا عروج اور خانہ جنگی کا پھیلاؤ بڑھتا گیا۔ سوویت انخلاء (1989ء) کے بعد، پاکستان نے 1994ء سے طالبان کی حمایت جاری رکھی، لاجسٹکس اور جنگجوؤں کی مدد سے 1996ء میں کابل پر قبضہ ہوا۔ اسی سست رفتار یلغار سے افغانستان میں "طالبان امارت” قائم ہوئی (جسے پاکستان نے 1997 میں تسلیم کیا)، لیکن اس سے پاکستانی مداخلت پر افغان ناراضگی بڑھی۔ طالبان قتل عام کے دوران سرحدی جھڑپیں ہوئیں، اقوام متحدہ کی رپورٹس پاکستانی شمولیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ سنہ 2001-2021 میں 9/11 کا ردعمل سامنے آیا۔ امریکی قیادت میں حملے نے طالبان کو ہٹایا، لیکن پاکستان کی طرف سے طالبان رہنماؤں کو کوئٹہ میں مبینہ پناہ دینے سے افغان شورش دوبارہ بھڑکی۔ حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کے سرحد پار حملوں سے نیٹو کے ڈرون حملے پاکستان میں ہوئے اور باہمی الزامات لگے۔ سنہ 2008ء کے ممبئی حملے لشکر طیبہ سے منسلک کیئے گئے۔ سنہ 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی امریکی چھاپے میں ہلاکت ہوئی، اور 2014ء میں پشاور اسکول قتل عام ٹی ٹی پی کی طرف سے سامنے آیا۔ سنہ 2017ء میں کابل بم دھماکوں کے بعد توپ خانے کی لڑائی عروج پر چلی گئی۔
البتہ طالبان کی سنہ 2021ء میں واپسی نے ابتدائی طور پر تعلقات بہتر کئے، پاکستان نے افغان امداد کے لئے او آئی سی مذاکرات کی میزبانی کی۔ تاہم، افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی حملوں نے پاکستان کو فضائی حملوں 2022 میں خوست حملوں پر مجبور کیا، جس میں شہری ہلاک ہوئے۔ سنہ 2024ء میں پکتیکا میں 46 ہلاکتیں ہوئیں۔ دسمبر 2024ء میں افغانستان نے جواباً 19 پاکستانی فوجی ہلاک کئے۔ اس دوران سرحدی بندشیں (مثلاً 2023-25 میں طورخم) نے سالانہ 2-3 ارب ڈالر کی تجارت متاثر کی۔ پاکستان کی 17 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی (اکتوبر 2025 تک جاری) نے اقوام متحدہ کی تنقید کو دعوت دی، خاص طور پر خواتین کارکنوں اور امریکی وابستہ مہاجرین کے خطرات کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان تنازعات کے باوجود، عملی شراکتیں بھی ابھریں۔ سرد جنگ 1980 کی دہائی میں پاکستان اور افغان مجاہدین نے سوویت فوجوں کے خلاف اتحاد کیا، امریکی- سعودی فنڈنگ (3-6 ارب ڈالر) ہوئی ۔ اس "جہاد” نے عارضی اتحاد کو فروغ دیا۔ سنہ 2001ء کے بعد سفارت کاری ہوئی۔ امریکی-پاک-افغان مذاکرات 2009ء میں ہوئے جس میں اوباما-زرداری-کرزئی سربراہی اجلاس کے ذریعے مصالحت کی کوشش کی گئی۔ سنہ 2015ء کے آئی ایس آئی- این ڈی ایس معاہدے نے مشترکہ انسداد دہشت گردی آپریشنز کی راہ ہموار کی، جس میں پاکستان نے افغان فوجیوں کو بچایا۔ پھر اقتصادی روابط ہوئے۔ سنہ 2010ء کے "پاک-افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ” نے پاکستانی بندرگاہوں (کراچی اور گوادر) کو افغان اشیاء کے لئے کھولا، جس سے 2023ء تک تجارت 2.5 ارب ڈالر تک پہنچی۔ ریل و سڑک روابط اور مشترکہ چیمبر آف کامرس (2010) نے وسطی ایشیا کی راہداریوں کو سہارا دیا۔ دونوں نے ای سی او (1985) اور سارک (1985) میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران ثقافتی سلامتی روابط ہوئے۔ افغان فوجی کیڈٹس پاکستانی اکیڈمی میں تربیت لیتے رہے اور سفارت کاروں کے لئے ویزا فری سفر شروع ہوا، مشترکہ کرکٹ ورثہ (افغان ٹیم پاکستانی کیمپوں میں بنی)۔
یہ اہم موقع تھا جب افغان صدر کرزئی نے پاکستان کو "جڑواں بھائی” کہا۔ مجموعی طور پر، تعلقات "بھائی چارے” کے بیانات اور "غیر اعلانیہ جنگ” کے الزامات کے درمیان جھومتے رہے، جو اندرونی سیاست (مثلاً پاکستان کی فوج بمقابلہ سویلین حکومتیں) اور عالمی تبدیلیوں سے متاثر رہیں۔
حالیہ بے دخلیوں اور حملوں سے کشیدگی بڑھ رہی ہے، لیکن اقتصادی انحصار تخفیف کے راستے ڈھونڈتا ہے۔ اب بھی افغانستان کے لیئے وقت ہے کہ وہ پاکستان دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے ماضی کی ان تاریخی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے پاکستان کے ساتھ دوستی کا پائیدار ہاتھ بڑھائے۔ افغان کوہسار کی فطری دوستی اور بھائی چارے کا تعلق پاکستان ہی سے بنتا ہے۔ اس کڑے وقت میں افغانستان بھارت کی طرف دیکھے گا اور پاکستان پر امریکی حمایت میں "دھوکہ دہئی” کا الزام لگائے گا تو وہ تاریخی غلطی ہو گی، جسے سدھارنے کے لیئے اسی طرح کی مزید کئی صدیاں لگ سکتی ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |