عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت
تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
پروفیسر کمال الدین خاکی
ولدیت : لعل خان
نام : کمال الدین ۔ تخلص : خاکی
جاۓ پیدائش : شاہی شمالی ۔
تحصیل دریا خان ۔ ضلع بھکر
حال مقیم : شاہ والا جنوبی ۔
تحصیل نور پور تھل ۔ ضلع خوشاب
تعلیم : ایم ۔اے اُردوُ + فاضل اُردوُ +
ایم اے ایجوکیشن ۔
تاریخ پیدائش : ( 4 جنوری 1966ء )
ابتدائی تعلیم : اپنے گاؤں شاھی شمالی سے پرائمری پاس کیا ۔ پھر قریبی گاٶں جھمٹ شمالی ( UC ) سے مڈل پاس کرنے کے بعد ہائی سکول دریاخان سے بطور ریگولر سٹوڈنٹ ( سرگودھا بورڈ ) کے انڈر میٹرک کا امتحان 1981ء میں پاس کیا ۔ بعد ازاں گھریلو نامساعد حالات کے سبب مزید ریگولر تعلیم جاری نہ رکھ سکے جبکہ تعلیم کے حصول کا جنون سر پہ سوار رہا ۔ پھر 1982ء میں انھوں نے ایلیمنٹری کالج میانوالی میں پی ٹی سی کلاس میں بطور ریگولر داخلہ لیا اور ٹیچنگ سرٹیفکیٹ ( انڈر سرگودھا بورڈ ) حاصل کرتے ہی فوراََ 9 فروری 1983ء کو گورنمنٹ پرائمری سکول جھمٹ جنوبی پہ تقرری ہوگئ ۔ یہی شعبہ ٹیچنگ کا نقطہ ٕ آغاز تھا ۔
پھر حصولِ تعلیم کا جنوں ہرگز کم نہ ہوا ۔
جس کا اظہار انھوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں کیا ۔
جنوں کب حامی ٕ سکوں ٹھہرا خاکی
بدن زندہ میں بہتےہوۓ خوں کی طرح
یوں ریگولر نہ سہی مگر ان کی تعلیم جاری و ساری تھی ۔ ایف اے پرائیویٹ ۔ ساتھ ہی پیشہ ورانہ سی ٹی سرٹیفکیٹ پرائیویٹ ۔ پھر بی اے پرائیویٹ پنجاب یونیورسٹی سے 1994ء میں اور ساتھ ہی 1995ء میں بی ایڈ بھی پنجاب یونیورسٹی سےبطور پرائیویٹ پاس کیا ۔ اسی دوران ان کی بطور EST ٹیچر پروموشن ہو گئ اور وہ پرائمری سکول سے ہائی سکول چک 56/ DB ضلع بھکر میں چلے گۓ ۔ وہیں پہ انھوں نے ایم اے اُردوُ 1999ء پنجاب یونیورسٹی سے بطور پرائیویٹ پاس کیا ۔ آپ بہت محنتی اور تعلیم کے رسیا تھے ۔ حضرت علامہ اقبال رح کے روحانی شاگرد کہلواتے ہیں ۔ اپنے روحانی مرشد کی طرح جذبہ ٕ جنوں کو کامیابی کا واحد حل سمجھتے ہیں ۔ جس کا اظہار ایک جگہ یوں کیا ۔
میرے سب دکھوں کا مداوا ہے خاکی
الٰہی میں تجھ سے جنوں مانگتا ہوں
2000ء میں اُردوُ سے لگاٶ کے سبب فاضل اُردوُ بھی سرگودھا بورڈ سے اوّل درجے میں پاس کیا اور یوں کچھ علم عروض اور علمِ بیان کا بھی تعارف حاصل کیا ۔
اسی دوران انھوں نے مائیگریشن کروائی اور ضلع بھکر سے ضلع خوشاب آ گۓ اور کچھ عرصہ وادی سون کے علاقہ میں گورنمنٹ ہائی سکول پیل میں تعلیمی خدمات سر انجام دیں پھر 2006ء کا سورج جوہر آباد میں طلوع ہوا اور تقریباً دس سال تک نواحی قصبے گورنمنٹ ہائی سکول خالق آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے اور ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رھا ۔
پھر ایم ایڈ 2006ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بطور پرائیویٹ اوّل درجے میں پاس کیا ۔ بعد ازاں انھوں نے 2017ء میں 53 سال کی عمر میں قبل از وقت ریٹائر منٹ لے کر پرائیویٹ کالج جوائن کر لیا جہاں انٹر میڈیٹ کلاسز کو اُردوُ اور مطالعہ پاکستان پڑھاتے آ رہے ہیں ۔
شاعری کا شوق انھیں بچپن سے تھا اور کلاس ہفتم سے انھوں نے شعر کہنا شروع کیا مگر پھر چھوڑ دیا پھر میڑک تک پہنچ کر دو بارہ شروع کیا اور کہا جا سکتا ہے کہ 1982ء سے ان کا باقاعدہ شاعری کا آغاز ہوا جو تا حال جاری و ساری ہے البتہ دوران میں 1987ء سے 1994ء تک ایک حرف بھی نہیں لکھا گیا ۔ ان کا یہ دورانیہ خاموشی پر مشتمل ہے ۔ پھر 1994ء سے ان کی نشاة ثانیہ شروع ہوئی ۔ انھوں نے اُردوُ شاعری کا بھی آغاز کر دیا ۔
شاعری تین زبانوں میں کرتے ہیں۔ اُردُو ۔ پنجابی ماجھی ۔اور سرائیکی ۔ البتہ عربی فارسی اور ہندی تراکیب کا استعمال خوب کیا ۔ بجا طور پہ وہ ایک قادر الکلام شاعر ہیں ۔
ہر صنف پہ انھوں نےطبع آزمائی کی ۔ دوہڑا ۔ماھیا ۔ گیت ۔ ہیمڑی ۔ غزل ۔کافی ۔ نظم ۔ قطعہ ۔ قصیدہ ۔ ملی نغمے ۔ حمد ۔ نعت ۔ وغیرہ سب پہ کچھ نہ کچھ کام ضرور کیا ۔ البتہ ان کا پسندیدہ موضوع ہمیشہ تصوف ہی رہا ۔ حسن و عشق کا تقابل اور عشق اور عقل کا مقابلہ ان کے بہت دلچسپ ٹاپک رہے ہیں ۔ معاشرتی تفاوت اور ناھمواری ، ناانصافیاں ، جبر ، ظلم اور تشدد کے خلاف بھی خوب لکھا ۔ رومانس بھی ان کے عنوانات میں شامل ہے ۔ سچائی ، خلوص ، محبت ، بھائی چارا ، اخوّت جیسے عنوانات بھی زیرِ بحث رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے طنز و مزاح اور حالاتِ حاضرہ پہ بھی خامہ فرسائی کی ہے ۔ غرض شاعری کے چالیس سالہ دور میں وسیع و عریض افکار کو زیبِ قرطاس کیا ۔ یہ امر انھیں ایک اعلیٰ پاۓ کے شعراء میں شامل کرتا ہے ۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مختلف قسم کے فوک اور کلاسیکل سنگرز نے ان کا کلام گایا بھی ہے ۔ جن میں طالب حسین درد ، بشیر احمد مخلص ، اللّٰہ دتہ لونے والا ، فرقت سوکڑی ، محمد حسین بندیالوی ، الفت خوشابی ، فتح علی کمالیہ والے ، میڈم انمول سیال ، عابد کنول جوہر آبادی ، امجد ڈھاکہ والے ، لطافت ڈھاڈی ، اشفاق خان شاقی وغیرہ شامل ہیں ۔
ان کے ہاں شاعری کا بہت زیادہ مواد موجود ہے اور اب کتب چھپوانے کا قصد کیۓ ہوۓ ہیں ۔ سرائیکی کی دو ضخیم کتب جن کے نام ٫٫ ریت دی خشبو ،، اور ٫٫ میڈی جاگیر ،، تجویز کیۓ گۓ ہیں ۔ اس کے علاوہ تیسری کتاب ٫٫ عقل ۔ عشق ۔ حسن دی روئیداد ،، اپنے مخصوص انداز میں زیرِ غور ہے ۔
اُردُو کی دو کتب جن کے نام یہ ہیں ۔
٫٫ جنوں کے تیور ،، اور ٫٫ شعارِ خاکی ،،
جو زیرِ طباعت ہیں ۔ ہم تو ہر وقت دستِ دُعا ہیں کہ اللّٰہ پاک ان کی اس محنتِ شاقہ اور کاوش پیہم کو کامیابی و کامرانی سے ھمکنار فرماۓ ۔ آمین
آخر میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
۔۔ھے بچھڑنے میں پوشیدہ لطف خاکی
وجودِ وصل بھی ہے مرھونِ جدائی
مومن کو بھی میراث کا کچھ علم ہو خاکی انساں کے بنا بنتا نہیں ابدال و قلندر ضوفشانی کر رہا تھا ہاں وہ اوروں کے لیے ٹمٹماتا زندگی کا اک دیا اچھا لگا
خاکی دلِ ویراں کا کیا بزم سے تعلق
یکجا بھلا ہوئے ہیں کبھی دشت و انجمن بھی

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |