تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا غیر منصفانہ بوجھ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کی معیشت ایک طویل عرصے سے محصولات کے غیر متوازن نظام کا شکار ہے، جہاں امیر طبقہ اور طاقتور تجارتی گروہ ٹیکس کی ادائیگی سے یا تو بچ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں یا پھر ان پر واجب الادا رقم حقیقت کے مقابلے میں نہایت کم رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس، تنخواہ دار طبقہ جو پہلے ہی مہنگائی، بجلی کے بلوں اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے براہ راست کٹوتی کے ذریعے قومی خزانے میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے پر مجبور ہے۔
ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 2025-26 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران تنخواہ دار طبقے نے 130 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا، جو تاجروں، تھوک فروشوں اور برآمد کنندگان کی مجموعی ادائیگی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ایف بی آر کی رپورٹ سے ظاہر ہوتے ہیں بلکہ ملک کے مالیاتی ڈھانچے میں موجود بنیادی ناانصافی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام نوآبادیاتی دور کے ورثے سے وجود میں آیا۔ برطانوی راج کے دوران محصولات کا نظام زیادہ تر زمین، تجارت اور صنعت سے وابستہ طبقے کے مفادات کے تابع تھا۔ آزادی کے بعد اس نظام میں چند اصلاحات ضرور کی گئیں مگر ٹیکس نیٹ کا دائرہ محدود ہی رہا۔
1950 اور 1960 کی دہائیوں میں صنعت کاروں اور زمینداروں کو ٹیکس میں متعدد رعایتیں دی گئیں، جبکہ تنخواہ دار طبقے کی آمدنی پر براہ راست کٹوتی کا نظام مضبوط کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کا متوسط طبقہ ہمیشہ ٹیکس وصولی کا آسان ہدف بن گیا۔
موجودہ صورتحال سرکاری ملازمین کے لیے انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ ایف بی آر کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق تنخواہ دار طبقہ 130 ارب روپے، جائیدادوں کی خرید و فروخت: 60 ارب روپے، برآمد کنندگان: 45 ارب روپے، تھوک فروش: 14.6 ارب روپے اور
ہول سیلرز: 11.5 ارب روپے
ٹیکس ادا کیے۔
یہ اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کا سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا طبقہ وہ ہے جو سب سے کم کماتا ہے۔جہاں برآمد کنندگان اور پراپرٹی ٹائیکونز کروڑوں اور اربوں روپے کے کاروبار میں مصروف ہیں، وہیں ان پر لاگو ٹیکس کی شرح نہایت کم ہے یا پھر وہ مختلف ٹیکس چھوٹ (exemptions) کے ذریعے اپنی ذمہ داریوں سے بچ نکلتے ہیں۔
تنخواہ دار طبقے کی مجبوری یہ ہے کہ ان کی تنخواہ سے براہ راست کٹوتی کی جاتی ہے۔
تنخواہ دار طبقے کے پاس ٹیکس سے بچنے کی کوئی راستہ موجود نہیں۔
ان کی آمدنی سے ٹیکس ذرائع پر ہی منہا کرلیا جاتا ہے۔
چاہے وہ ایک کلرک ہو، ایک استاد، ایک ڈاکٹر، یا ایک سرکاری اہلکار ان سب کی تنخواہ سے کٹوتی سیلری سلیپ کے ذریعے خودکار نظام میں درج ہوجاتی ہے۔
اس کے برعکس تاجر، دکاندار اور سرمایہ کار اپنے حساب کتاب میں ہیرا پھیری کے ذریعے ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایف بی آر کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ایکٹو ٹیکس دہندگان کی تعداد ابھی بھی کل آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
یہ تنخواہ دار طبقے کے ساتھ ناانصافی اور طبقاتی تفریق کا معاشی پہلو ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر زیادہ ہے، جبکہ ریاستی مراعات کا فائدہ امیر طبقہ اٹھاتا ہے۔
نتیجتاً، معاشی ناہمواری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک طرف ایک سرکاری ملازم یا پرائیویٹ ادارے کا ملازم ہر ماہ اپنا ٹیکس دے کر ملکی معیشت کا پہیہ چلاتا ہے، تو دوسری طرف اشرافیہ طبقہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرلیتا ہے۔
ریاستی پالیسیوں میں سب سے بڑی خامی ٹیکس میں مساوات کی کمی ہے۔
بجٹ 2025-26 میں حکومت نے چند درجہ بندیوں میں معمولی کمی ضرور کی، لیکن وہ ساختی اصلاحات کرنے میں ناکام رہی جو ٹیکس نیٹ کو وسعت دے سکتیں۔
ایف بی آر کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریٹیل و ہول سیل سیکٹر جو معیشت کا بڑا جزو ہے، اس سے صرف 26 ارب روپے کے قریب ٹیکس حاصل ہوسکا یہ وہ شعبہ ہے جو ملکی معیشت کے 18 فیصد سے زیادہ کا نمائندہ ہے۔
مہنگائی کی بلند شرح، بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ اور اشیائے خورونوش کی بڑھتی قیمتوں نے تنخواہ دار طبقے کی قوتِ خرید کو کمزور کر دیا ہے۔
اب وہی طبقہ، جس پر ریاست کا نظام چلتا ہے، قومی خزانے کی ریڑھ کی ہڈی ہونے کے باوجود سب سے زیادہ قربانی دے رہا ہے۔
ان حالات میں عام شہری کے اندر یہ احساس گہرا ہو رہا ہے کہ ریاست اپنے ٹیکس دہندگان کو بدلے میں کوئی سہولت نہیں دیتی۔
نہ تعلیم، نہ صحت، نہ تحفظ صرف بوجھ پر بوجھ ہے۔
پاکستان کے ٹیکس نظام میں اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ معیشت پائیدار بنیادوں پر کھڑی ہو تو اسے درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔
غیر رجسٹرڈ تاجروں، جائیداد مالکان اور سرمایہ کاروں کو لازمی طور پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
تنخواہ دار طبقے پر موجودہ شرح کم کی جائے اور اشرافیہ پر ٹیکس بڑھایا جائے۔
ایف بی آر کے نظام کو ڈیجیٹلائز کیا جائے تاکہ کوئی طبقہ اعداد و شمار میں رد و بدل نہ کر سکے۔
ریاست کو ٹیکس دہندگان کو صحت، تعلیم اور تحفظ کی بنیادی سہولیات دینا لازم ہے۔
بار بار دی جانے والی اسکیموں سے ٹیکس چوری کو جواز ملتا ہے، انہیں فوری طور پر بند کیا جائے۔
130 ارب روپے کا ٹیکس دینے والا تنخواہ دار طبقہ دراصل اس ملک کی غیر مرئی طاقت ہے۔ وہ خاموشی سے اپنا فرض ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں ریاستی انصاف کی طلب رکھتا ہے۔
اگر پاکستان نے ترقی کی راہ پر آگے بڑھنا ہے تو ٹیکس کے نظام میں انصاف، توازن اور مساوات کو بنیادی اصول بنانا ہوگا، ورنہ یہ طبقاتی خلیج بڑھتی جائے گی اور ریاست کی معاشی بنیادیں مزید کمزور ہو جائیں گی۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |