نڈر سپہ سالار خالد بن ولید
اسلامی تاریخ کامیاب جنگجوو’ں اور بے خوف سپہ سالاروں کی تاریخ ہے۔ انہوں نے جنگی میدانوں میں داد و شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ عیسائی دنیا آج بھی مسلمان جہادیوں سے دبکتی ہے۔ خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا شمار اولین مسلم کمانڈروں میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ، "اگر دنیا میں ایک اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہو جاتے تو آج پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔” ان کے علاوہ جو مسلم فاتحین شہرت کے آسمان پر چمکے ان میں خالد بن ولید، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، یوسف بن تاشقین اور صلاح الدین ایوبی وغیرہ سرفہرست ہیں۔ یوسف بن تاشقین پر اس سے پہلے ایک اظہاریہ لکھا تھا جسے قارئین نے بہت پسند کیا. آج کی تحریر میں مختصرا ان دیگر مسلم فاتحین میں سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہادری اور فتوحات کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے جہادی معرکوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔
ابتدائے اسلام میں خالد بن ولید نے مسلمانوں کی فتوحات کا دبنگ آغاز کیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ صدر اسلام کے جنگی افسروں میں سے ایک تھے جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل بدر، احد اور احزاب کی جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف حصہ لیا اور فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد، انہوں نے جنگ موتہ، فتح مکہ، اور جنگ حنین میں بہادری کے جوہر دکھائے۔
خالد بن ولید عرب کے نامور سپہ سالار اور صحابی رسول حضرت محمد ﷺ تھے۔ حضرت خالد بن ولید ابن مغیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ خاندان قریش کے بہت ہی نامور اشراف میں سے تھے۔ ان کی والدہ حضرت بی بی لبابۂ صغری رضی اللہ تعالیٰ عنہا ام المؤمنین حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن تھیں۔ آپ بہادری اور فن سپہ گری و تدابیر جنگ کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی اور ان کے باپ ولید کی اسلام دشمنی مشہور تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ بدر اور جنگ احد کی لڑائیوں میں یہ کفار کے ساتھ تھے اور ان سے مسلمانوں کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچا مگر ناگہاں ان کے دل میں اسلام کی صداقت کا ایسا آفتاب طلوع ہوا کہ 7 ہجری میں یہ خود بخود مکہ سے مدینہ جا کر دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہو گئے اور دامن اسلام میں آ گئے۔
صلح حدیبیہ کو اللہ تعالیٰ نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا ہے، لیکن یہ اجسام کی نہیں قلوب کی فتح و تسخیر کا معاملہ تھا. اس مرحلہ پر اسلام کو اپنی دعوت کی اشاعت کے لئے امن درکار تھا جو اس صلح سے حاصل ہو گیا. دعوتِ توحید کی وسعت کو دیکھ کر خود قریش یہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ ہماری شکست اور جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی فتح ہے. صلح حدیبیہ سے قبل قریش اور اہل ایمان کے مابین ہونے والے معرکوں میں قریش کی صفوں میں ایک جنگجو اور باصلاحیت شہسوار کی حیثیت سے خالد بن ولیدؓ کا نام ممتاز نظر آتا تھا. جنگ کے دوران گھڑ سوار دستوں کی قیادت انہی کے سپرد رہتی تھی. غزوۂ احد کے موقع پر ان ہی کی تدبیر سے قریش کی شکست فتح میں بدل گئی تھی اور مسلمانوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا. حدیبیہ کے موقع پر بھی قریش نے گھڑ سواروں کا ایک دستہ ان کی زیر کمان نبی اکرمﷺ کا راستہ روکنے کے لئے بھیجا تھا. آپ ﷺ کو اطلاع مل گئی اور آپ ﷺ نے راستہ بدل لیا، ورنہ خالد بن ولیدؓ تو حضور ﷺ کا راستہ روکنے کے لئے رابغ سے بھی آگے نکل گئے تھے. حضورﷺ نے مسلمانوں کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر قیام کیا. صحابہ کرام ؓ نے جگہ جگہ پڑاؤ ڈال رکھے تھے. خالد بن ولید ؓ کو جب پتہ چلا تو وہ بھی اپنے گھڑ سواروں کے دستہ کے ساتھ پلٹ کر حدیبیہ پہنچ گئے.
یہاں پہنچ کر خالد بن ولیدؓ کی طرف سے ایک انوکھے طرز عمل کا مظاہرہ ہوا. یہ ایک ایسے پڑاؤ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ کرامؓ میں سے دو اڑھائی سو کی نفری فروکش تھی. خالد بن ولید ؓ نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح یہ اہل ایمان مشتعل ہو جائیں اور کسی مسلمان کا ایک مرتبہ ذرا ہاتھ اُٹھ جائے. قریش کی کچھ روایات تھیں جن سے انحراف خالدؓ بن ولید کے لئے ممکن نہ تھا. چونکہ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ احرام کی حالت میں تھے اور ان کی قدیم روایات چلی آ رہی تھیں کہ مُحرِم پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، اس لئے خالد بن ولیدؓ جنگ کی پہل نہیں کرنا چاہتے تھے. لیکن انہوں نے اشتعال انگیزی کی حتی الامکان کوشش کی. وہ اپنے گھوڑے لے کر بار بار صحابہ ؓ کی اس جماعت پر ایسے چڑھ چڑھ کر آئے جیسے ان کو گھوڑوں کے سموں سے کچل دیں گے. انہوں نے کئی بار اس عمل کو دہرایا، لیکن جو حکم تھا جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا صحابہ کرام ؓ اس پر کار بند رہے. نہ کوئی ہراساں ہوا، نہ کوئی بھاگا اور نہ ہی کسی نے مدافعت کے لئے ہاتھ اٹھایا. نظم و ضبط کے اس مشاہدہ کا خالد بن ولیدؓ پر اتنا گہرا اثر ہو چکا تھا کہ وہ زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کر سکے اور ان کا گھائل دل بالآخر مُسَخّر ہو گیا، جس کا ظہور صلح حدیبیہ کے بعد ہوا اور وہ مشرف بہ ایمان ہونے کے لئے عازمِ مدینہ ہوئے.
حضرت خالد بن ولیدؓ جب سوئے مدینہ چلے تو راستہ میں حضرت عمرو بن العاصؓ مل گئے جو قریش کے ایک اعلیٰ مدبر، شجاع و دلیر اور فنون حرب کے بہت ماہر تسلیم کئے جاتے تھے. یہی وہ صاحب تھے جن کو 5 ہجری نبوی میں حبشہ ہجرت کر جانے والے مہاجرین کی بازیابی کے لئے قریش نے سفیر بنا کر جناب نجاشی ؒ کے دربار میں حبشہ بھیجا تھا. حضرت خالدؓ نے دریافت کیا کہ کہاں کا قصد ہے؟ بولے اسلام قبول کرنے کے لئے مدینہ جا رہا ہوں. میرے دل نے تسلیم کر لیا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول برحق ہیں اور اسلام اللہ کا نازل کردہ دین ہے. حضرت خالدؓ نے کہا اپنا بھی یہی حال ہے. چنانچہ قریش کے یہ دونوں مایہ ناز اور جلیل القدر فرزند بارگاہِ نبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں حاضر ہوئے اور دولت ایمان سے مشرف ہوئے.
اس طرح وہ جوہر جو اُس وقت تک اسلام کی مخالفت میں صرف ہو رہا تھا، اب اسلام کی محبت اور اس کی اشاعت و توسیع میں صرف ہونے لگا. حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عمرو بن العاص ؓ نے دورِ نبوت اور بعد ازاں دورِ خلافت صدیقی و فاروقی میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ رہتی دنیا تک بھلائے نہیں جا سکتے. اول الذکر کا دنیا کے عظیم ترین جرنیلوں میں شمار ہوتا ہے. دورِ صدیقی میں فتنہ ارتداد کی سرکوبی میں انہوں نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا. اسی طرح کسریٰ پر ابتدائی کاری ضرب انہیؓ کے ہاتھوں لگی اور انہیؓ کے ہاتھوں قیصر کی سلطنت میں سے شام کا ملک اسلامی قلمرو میں شامل ہوا اور آخر الذکر مصر کے فاتح ہوئے. ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دو عظیم انسانوں کا قبول اسلام دراصل صلح حدیبیہ ہی کے ثمرات کا مظہر تھا.
مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ عہد کر لیا کہ اب زندگی بھر میری تلوار کفار سے لڑنے کے لئے بے نیام رہے گی۔ چنانچہ اس کے بعد ہر جنگ میں انتہائی مجاہدانہ جاہ وجلال کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں شمشیر بکف رہے۔ یہاں تک کہ 8 ہجری میں جنگ موتہ میں جب حضرت زید بن حارثہ و حضرت جعفر بن ابی طالب و حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تینوں سپہ سالاروں نے یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کر لیا تو اسلامی فوج نے ان کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور انھوں نے ایسی جاں بازی کے ساتھ جنگ کی کہ مسلمانوں کو "فتح مبین” حاصل ہو گئی۔ اسی موقع پر جب یہ جنگ میں مصروف تھے تو حضور اکرم ﷺ
نے مدینہ منورہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت کے سامنے ان کو ”سیف اللہ” (اللہ کی تلوار) کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔
امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جب "فتنہ ارتداد” نے سر اٹھایا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان معرکوں میں بھی خصوصاً جنگ یمامہ میں مسلمان فوجوں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری قبول کی اور ہر محاذ پر فتح حاصل کی۔ پھر امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران رومیوں کی جنگوں میں بھی انھوں نے اسلامی فوجوں کی کمان سنبھالی جس سے بہت زیادہ فتوحات حاصل ہوئیں۔ موتہ کی جنگ کے دوران، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بازنطینیوں کے خلاف مسلم فوجوں کی قیادت کی۔ انھوں نے 629-630ء میں مکہ میں مسلمانوں کی فتح اور 630ء میں حنین کی جنگ کے دوران مسلم فوج کے تحت بدویوں کی قیادت کی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نجد اور یمامہ میں کمانڈر مقرر کیا گیا تھا تاکہ ان عرب قبائل کو دبایا جائے جو نوزائیدہ مسلم ریاست کے مخالف تھے۔ اس مہم کا اختتام بالترتیب 632 میں جنگ بزاخہ اور 633ء میں یمامہ کی جنگ میں عرب باغی رہنماؤں طلیحہ بن خویلد اور مسیلمہ کذاب پر خالدبن ولید کی فتح پر ہوا۔
انھیں عام طور پر مورخین ابتدائی اسلامی دور کے سب سے تجربہ کار اور کامیاب ترین جرنیلوں میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔ اسلامی روایت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کی جنگی حکمت عملیوں اور مسلمانوں کی فتوحات کی موثر قیادت کا سہرا دیتی ہے۔ ابو سلیمان خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ تاریخ کے ان چند فوجی کمانڈروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ساری زندگی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ بازنطینی رومی سلطنت، فارسی ساسانی سلطنت اور ان کے اتحادیوں کی اعلیٰ افواج کے خلاف 100 سے زائد لڑائیوں میں ناقابل شکست رہے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کے جسم پر 70 سے زیادہ زخموں کے نشان تھے۔ ان کی خواہش تھی کی انہیں میدان جنگ میں شہادت نصیب ہو لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند دن بیمار رہ کر ان کا طبعی انتقال مدینہ منورہ (یا حمص) میں 22 ہجری کو ہوا۔
Title Image by Stefan Schweihofer from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |