ضمیرِمغرب ہے تاجرانہ
علامہ محمد اقبال برصغیر پاک و ہند کی وہ گراں قدر میراث ہیں جن پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں. وہ بیک وقت شاعر ،مفکر ،فلسفی و سیاست داں ہی نہیں بلکہ وہ مشرق ،ملت اسلامیہ، ہندوستان اور عالم انسانیت کی حریت و اخوت اور اس مقصد کے لیے نشاۃ ثانیہ کے علمبردار ہیں. فارسی اور اُردو شاعری میں انہوں نے ایک جاندار مفکرانہ نقطہ نظر پیدا کیا ،شاعری کو نیا مواد دیا، نئی وسعتیں بخشیں ،مادی ،اخلاقی اور روحانی مسائل پر غور کرنے کے نئے راستے دکھائے، شاعری میں نئی طاقت اور گہرائی ،نیا نصب العین اور زور پیدا کیا اور انہیں اسالیب کے نئے سانچوں میں ڈھالا. اقبال کے یہاں حقیقت پسندی اور عینیت کا عجیب امتزاج ہے. اور جب تک ان کے افکار و خیالات کا مکمل تجزیہ نہ کیا جائے کوئی بات واضح نہیں ہوتی.
ارمغان حجاز(حجازِ مقدس کا تحفہ) علامہ اقبال کی شعری تصنیف ہے۔ جس میں انہوں نے مغربی تہذیب کی ان خامیوں سے پردہ اٹھایا جن کی بنیادیں عقلیت اور مادیت پر قائم تھیں. یہ کتاب علامہ اقبال کی وفات کے چند مہینے بعد1938میں شائع ہوئی.مشرقیت اور مغربیت کے خلاف ان کے یہ اعتراضات ملحوظ رہیں.
ضمير مغرب ہے تاجرانہ، ضمير مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، يہاں بدلتا نہيں زمانہ
کنار دريا خضر نے مجھ سے کہا بہ انداز محرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، يہ سب طريقے ہيں ساحرانہ
حريف اپنا سمجھ رہے ہيں مجھے خدايان خانقاہی
انھيں يہ ڈر ہے کہ ميرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے يہی رمز آشکارا
زميں اگر تنگ ہے تو کيا ہے، فضائے گردوں ہے بے کرانہ
خبر نہيں کيا ہے نام اس کا، خدا فريبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدير کا بہانہ
مری اسيری پہ شاخ گل نے يہ کہہ کے صياد کو رلايا
کہ ايسے پرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ آشیانہ
اقبال نے ملا ضیغم کی زبان سے موجودہ وقت کی اس تلخ حقیقت کا ذکر کیا ہے کہ مغرب والوں کی تہذیب اورذہنی سوچ تاجرانہ ہے جو ہر گھڑی دولت کمانے میں مصروف ہیں. مشرق والوں کی بات کی جائے وہ جمود کا شکار ہیں وہ بے بسی اور بدحالی سے نکلنے کا خیال ذہن میں نہیں لاتے. دونوں کی زندگیاں اللہ کے قانون کے خلاف ہیں. پہلے مادیت پرستی اور دوسرے رہبانیت پرستی میں مبتلا ہیں. سکندری (بادشاہت) اور قلندری (روحانیت) دونوں ساحری کے ڈھنگ ہیں جن کے ذریعے بادشاہ اور درویش معصوم اور سادہ دل رکھنے والے بندوں کو اپنے اپنے دھوکے میں مبتلا کر کے ان کو غلامی اور مسکینی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں.وہ لوگ جو خانقاہوں پر اپنے بزرگوں کی مسند پر براجمان ہیں. وہ اپنے مریدوں کو ہدایت کی راہ پر رکھنے اور اللہ سے منسلک کرنے کے بجائے ان سے پیسہ وصول کر رہے ہیں پیری اور مریدی کو انھوں نے روزگار کا ذریعہ بنا رکھا ہے. اس لیے آج کے پیرمجھے اپنا حریف سمجھتے ہیں ۔ انہیں خوف ہے کہ میرے پیغام کی بدولت ان کی دہلیز کا پتھر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جائے. محکوم قوموں کے علم ظاہری کا یہ راز کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ کر خود کو پرسکون رکھتی ہے کہ اگر ہمیں دنیاوی حکومت اور سربلندی حاصل نہیں ہے تو کیا ہوا آسمان کی فضا تو نہایت وسیع ہے؟ موجودہ وقت کے مسلمانوں نے طے کررکھا ہے کہ نصیب میں جو لکھا ہے وہی ہوکر رہنا ہے. اس لیے ہمیں کوشش اور عمل کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ ہماری تقدیر کو بدل دے گا. اس غلط عقیدے کو خود پر مسلط کرکے مسلمان عمل کی طاقت سے دور ہو چکے ہیں . شکاری نے مجھ بلبل کو گلاب کی ڈالی سے پکڑ کر جب پنجرے میں قید کر لیا تو گلاب کے پھولوں نے قید کرنے والے کو یہ کہہ کر رنجیدہ کردیاکہ اس بلبل کا آشیانہ ہماری ڈالی پر کوئی بوجھ نہیں تھا.
علامہ کی تنقید کا ایک بڑا مرکز مغربی فلسفہ اور اس کی مادیت پر مبنی فکریات ہیں.اگر ہم علامہ کی نظم و نثر کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ خود علامہ محمد اقبال فلسفہ و فکر کے بلند مرتبے فائز پر تھے اور انہوں نے بہت ساری جگہوں پر مغرب اور مشرق کے مفکرین سے صرف اختلاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کے نظریات کو بھی سرے سے رد کیا ہے. مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ علامہ کہ شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں اسلامی فکر و فلسفہ کے ساتھ ساتھ مشرقی اور مغربی فکر بھی شامل رہی ہے. مجموعی طور پر مغرب کے لیے علامہ کا رویہ سطحی یا یک رخی نہیں بلکہ متضاد اور پچیدہ رہا ہے.
حمیرا جمیل، سیالکوٹ
اقبال ریسرچ انسٹیٹیوٹ،لاہور
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |