جانشینی سرٹیفیکیٹ، انکاری سرٹیفیکیٹ اور سول کورٹ کا اختیار
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
پنجاب میں وراثتی معاملات ہمیشہ سے حساس اور پیچیدہ رہے ہیں۔ قانونی پیچیدگیاں، خاندانوں کے اندر اختلافات، شناخت کے مسائل اور کاغذی رکاوٹیں عام شہری کیلئے نہ صرف مشکل پیدا کرتی تھیں بلکہ برسوں تک جائیداد کے تنازعات چلتے رہتے تھے۔
اسی پس منظر میں پنجاب لیٹر آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفیکیٹ ایکٹ 2021 متعارف ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ جانشینی اور وراثتی سرٹیفیکیٹس ایک ایسے نظام کے ذریعے جاری ہوں جو تیز رفتار بھی ہو اور جعل سازی کے امکان کو کم بھی کر دے۔
پاکستان میں وراثتی امور کا بنیادی قانون Succession Act 1925 ہے، جو برطانوی دور میں نافذ کیا گیا۔ اس قانون کے تحت وراثتی سرٹیفیکیٹ لینے کیلئے درخواست سول عدالت میں دائر کی جاتی تھی، گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوتے تھے، نوٹس جاری ہوتے تھے اور اعتراضات کی صورت میں باقاعدہ ٹرائل بھی ہوتا تھا۔
وقت کے ساتھ عدالتوں پر دباؤ بڑھا، مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوا اور فیصلہ سازی میں تاخیر معمول بن گئی۔
اسی دباؤ کو کم کرنے کیلئے 2021 میں صوبہ پنجاب نے ایک بالکل نیا راستہ نکالا۔
وراثتی سرٹیفیکیٹس کے اجراء کا اختیار نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو دیا گیا، تاکہ عمل تیز ہو، جعل سازی کے امکانات کم ہوں، خاندانوں کو لمبے عدالتی عمل سے نجات ملے۔ نادرا کے Family Registration Certificate کے ذریعے قانونی ورثاء کی شناخت کا عمل آسان ہو گیا۔لیکن اس نظام میں ایک بنیادی خامی موجود تھی۔ وراثتی معاملات صرف کاغذی نہیں ہوتے۔ خاندانوں کے اندر اختلافات، کم عمر ورثاء، مشتبہ دعوے، شناخت کے تنازعے اور انکاری سرٹیفیکیٹس جیسے مسائل ایسے تھے جہاں نادرا کے پاس فیصلہ کرنے یا شواہد ریکارڈ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
ایسے معاملات کیلئے شہریوں کو دوبارہ عدالت جانا پڑتا تھا، مگر سول عدالت کا اختیار قانون 2021 کے تحت محدود ہو چکا تھا۔ یوں ایک قانونی خلا پیدا ہو گیا، جس سے عام شہری مشکلات کا شکار رہے۔ 31 جولائی 2025 کی ترمیم کر ذریعے سول کورٹ کا اختیار بحال کیا گیا۔عوامی شکایات، وکلا کی اپیلوں اور قانونی ماہرین کی رپورٹس کے بعد حکومتِ پنجاب نے آخرکار Punjab Letters of Administration and Succession Certificates (Amendment) Act 2025 منظور کیا۔ جن کے اہم نکات میں سرفہرست سیکشن 3 میں ترمیم ہے۔ نادرا کے ساتھ ساتھ سول عدالت کو بھی دوبارہ اختیار دیا گیا کہ وہ وراثتی سرٹیفیکیٹ اور لیٹر آف ایڈمنسٹریشن جاری کر سکے۔
اس طرح شہریوں کے پاس اب دو راستے موجود ہیں پہلا راستہ نادرا ہے اور دوسرا سول عدالت۔
سول عدالت کیلئے شرط یہ ہے کہ عدالت وہی پرانا طریقہ اختیار کرے گی جو Succession Act 1925 کے تحت رائج ہے یعنی درخواست، نوٹس، گواہوں کے بیانات اور فائنل آرڈر۔
اسی طرح سیکشن 10 کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ اس سیکشن کے ذریعے نادرا کے فیصلوں کو اضافی تحفظ حاصل تھا۔ اب اس کو ہٹا کر عدالت کے راستے کو آسان کیا گیا۔ اس تبدیلی کی عملی اہمیت بھی ہے یعنی انکاری سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔
ورثاء میں اختلاف ہو یا کوئی وارث کسی وجہ سے بیان دینے سے انکار کرے، اب شہری نادرا کے بجائے سیدھا سول عدالت جا سکتے ہیں۔ اس سے ’’انکاری سرٹیفیکیٹ‘‘ جیسی پرانی مشکلات کم ہوں گی۔ جہاں ورثاء کی تعداد زیادہ ہو، اعتراضات ہوں یا جائیداد تنازع ہوا، وہاں عدالت کے پاس اختیار ہونا ضروری تھا، جو اب بحال ہو گیا ہے۔
اب شہریوں کو دو راستوں کی آزادی دی گئی ہے۔ سادہ کیس ہو تو نادرا، پیچیدہ کیس ہو تو عدالت، یہ لچک عام آدمی کیلئے آسانی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
عدالتیں شواہد ریکارڈ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، لہٰذا ایسے معاملات جہاں حقائق متنازع ہوں، اب شفاف طریقے سے حل ہوں گے۔
یہ ترمیم بظاہر ایک مثبت قدم ہے، مگر چند سوالات اپنی جگہ موجود ہیں:
کیا عدالتوں پر بوجھ دوبارہ بڑھ جائے گا؟
اگر شہریوں کا اعتماد عدالتوں پر زیادہ ہوا تو مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
دو متوازی نظام کبھی کبھار کنفیوژن بھی پیدا کرتے ہیں۔ شہری کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کس راستے پر جائے۔
عدالتیں تیز رفتار فیصلہ سازی کے لئے اپنے اندر اور بھی بہتری لائیں، ورنہ لوگ دوبارہ مشکلات کا شکار ہوں گے۔
31 جولائی 2025 کی ترمیم نے پنجاب کے شہریوں کو ایک اہم سہولت لوٹا دی ہے۔ سول عدالت کا اختیار بحال ہونے سے نہ صرف ’’جانشینیی سرٹیفیکیٹ‘‘ اور ‘‘لیٹر آف ایڈمنسٹریشن‘‘ جیسے معاملات میں شفافیت بڑھے گی بلکہ پیچیدہ اور متنازع وراثتی کیسز میں انصاف کے مواقع بھی بہتر ہوں گے۔
اس ترمیم نے 1925 کے کلاسیکی عدالتی نظام اور 2021 کے جدید نادرا ماڈل کے درمیان ایک توازن قائم کر دیا ہے۔اب فیصلہ درخواست گزار کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس راستے کو زیادہ موزوں سمجھتا ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |