پاکستان کرکٹ ٹیم کا اصل مسئلہ
تحریر: محمد ذیشان بٹ
پاکستانیوں کی خوشیوں کے ذخائر پہلے ہی محدود تھے، اوپر سے مہنگائی، سیاست، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور سوشل میڈیا کی لڑائیاں… ہر طرف شور ہی شور ہے۔ ایسے میں جس واحد گاڑی کی ہوا سے قوم کو کچھ دیر کی ٹھنڈک ملتی تھی، وہ کرکٹ تھی۔ لیکن اب کرکٹ بھی ایسی ہو گئی ہے جیسے مہنگائی—ہر روز بڑھتی پریشانی، گھٹتی امید اور بڑھتی تلخی۔
پچھلے کچھ عرصے سے ٹیم کی پرفارمنس ایسی ہچکولے کھا رہی ہے جیسے کراچی کی بسیں کچے راستے پر۔ سب ماہرین بیٹنگ کا رونا روتے ہیں، لیکن بھائیو! یہ تو ہمارا پیدائشی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی بیٹنگ کبھی بھی ڈائریکٹ راستے پر نہیں چلی۔ کبھی ظہیر عباس کا دن، کبھی میانداد کی باری، کبھی سعید انور کا کمال، کبھی انضمام کی قابلیت… بس انفرادی چمک دمک پر گزارا رہا۔ آج بھی بابر اعظم موجود ہے، قوم اس پر اعتبار بھی کرتی ہے، پیار بھی۔ لیکن قومی ٹیم کے مسائل فردِ واحد سے حل نہیں ہوتے، ورنہ بابر کے نام پر قوم کتنے سال سے دعائیں مانگ رہی ہے۔
اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں—ہماری پہچان، ہماری پہچان کون سی؟ بیٹنگ؟ ہرگز نہیں! پاکستان کی اصل طاقت ہمیشہ بولنگ رہی ہے۔ وہ بولنگ جس نے دنیا کو خوف میں مبتلا رکھا۔ جس قبیلے کا آغاز جلال الدین سے ہوتا ہے اور پھر سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، عمر گل… جن کی ایک گیند پر پورے ملک میں بجلی آ جاتی تھی۔ مخالف کپتان پچ کے اندر نہیں بلکہ پچ سے باہر پلاننگ کرتا تھا کہ پاکستان کے فاسٹ باؤلرز سے بچنا کیسے ہے۔ آخری پانچ اوور تو دشمن ٹیم کے لیے یومِ حساب ہوا کرتے تھے۔ سونے پر سہاگہ—سپن اٹیک۔ عبدالقادر، مشتاق، ثقلین، سعید اجمل… ایسا جادو کہ بیٹسمین کو لگا کسی نے بال پر وظیفہ پڑھ کر پھینکی ہے۔
اوپر سے آل راؤنڈرز… عبدالرزاق، شاہد آفریدی، شعیب ملک—انہیں دیکھ کر مخالف ٹیم سوچتی تھی کہ بیٹنگ نہ چلی تو باؤلنگ میں جا لگا دیں گے، باؤلنگ نہ چلی تو ایک آدھ چھکا مار کر میچ ہی ختم کر دیں گے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کی ٹیم کا نام لیتے ہی مخالفین کی گھنٹیاں بج جاتی تھیں۔
اب ذرا حال کی طرف آئیں۔ آج ہمارا سب سے تیز باؤلر حارث رؤف ہے۔ جتنی تیزی سے اس کی گیند جاتی ہے، اس سے دو گنا زیادہ رفتار سے باؤنڈری کی طرف واپس آ جاتی ہے۔ شاہین آفریدی کا حال تو یہ ہے کہ زمبابوے کے بیٹسمین بھی اسے ’سیریز آف دی ایئر‘ سمجھ کر کھیل رہے ہیں۔ آل راؤنڈر کے نام پر فہیم اشرف… خیر اس پر جتنا نہ بولا جائے اتنا ہی بہتر، کہیں وہ خود نہ سن لے اور غصے میں پھر کسی میچ میں چوکے نہ کھا لے۔
پی سی بی کی سمجھ سے باہر بات ہے کہ جب وسیم اکرم جیسے لیجنڈ مفت تربیت دینے کو تیار ہیں تو وہاب ریاض اور عاقب جاوید کو کون سی مہر لگا ہوا ہے کہ ان کا انٹری پاس ختم ہی نہیں ہوتا؟ شاید پی سی بی کا خیال ہے کہ وسیم اکرم کی زیادہ تربیت سے کھلاڑی کہیں اچھی ٹیم نہ بن جائیں اور ہم عادتاً انہی بحثوں سے محروم نہ ہو جائیں کہ پاکستان میں اصل مسئلہ کیا ہے۔
ایک اور بنیادی مسئلہ کھلاڑیوں کی تعلیم اور ذہنی تربیت کا ہے۔ یہاں کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد پتا لگاتے ہیں کہ "کنٹریکٹ میں یہ بھی لکھا تھا؟” مستقل کونسلنگ ضروری ہے۔ انہیں یہ سمجھانے کی کہانی اب کسی کو تو شروع کرنی پڑے گی کہ قومی ٹیم صرف تنخواہ کا نام نہیں، ملک کی عزت ہوتی ہے۔ ورنہ عامر اور آصف والی فلموں کے سیکوئل بنتے دیر نہیں لگتی۔
اور آخر میں کپتان… پاکستان میں کپتانی ایسے بدلتی ہے جیسے گھر میں ٹی وی کا ریموٹ—جس کے ہاتھ میں آیا، لے گیا۔ ٹیم کو چاہیے ایک مستقل کپتان، کم از کم دو سال کے لیے، تاکہ یہ چوہے بلی والا کھیل ختم ہو اور کھلاڑی اپنی جان کرکٹ پر لگائیں، سیاست پر نہیں۔
پاکستان کرکٹ میں مسائل بہت ہیں، لیکن حل بھی ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ نیت صاف ہو، سوچ وسیع ہو، اور فیصلے میرٹ پر ہوں۔ اگر کبھی ایسا ہو گیا تو یقین کریں قوم کو وہی پرانی خوشی مل جائے گی جو وسیم کی ان سوئنگ، وقار کی یارکر، اور شعیب کی باؤنسر دیتی تھی۔ تب پاکستان کرکٹ پھر وہی پاکستان کرکٹ ہو گی—جسے دیکھ کر دل تھکتا نہیں تھا، بلکہ زندہ ہو جاتا تھا۔

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |