نسیم عباس کاشف ایک خوبصورت شاعر
تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
خطہء جھنگ ارب کے حوالے سے ایک عظیم خطہء ہے ۔ اِس علاقے میں تخلیق ہونے والا ادب اپنی مثال آپ ہے ۔ اِس خطہء میں بڑے بڑے شاعر ، ادیب ، محقق پیدا ہوئے جنہوں نے ادب کے میدان میں نمایاں نام پیدا کیا ۔ اِس دھرتی پر دو عالمی شہرت یافتہ لوک داستانوں نے جنم لیا جن میں ہیر رانجھا اور مرزا صاحبہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ رومانیت کی وجہ اس خطے کو عاشقوں صادقوں کا خطہ کہا جاتا ہے ۔ اِن رومانوی داستانوں کی وجہ سے ہی یہاں پر تخلیق ہونے والا ادب اپنے اندر ایک انوکھی چاشنی رکھتا ہے ۔ اس لئے اس خطے کے تخلیقی ادب میں عشق و محبت ، ہجر و وصال اور رومانیت کے اثرات کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ شاعری میں اگر پیار ، محبت ، عشق کے ساتھ وصول اور فطری جذبے نہ ہو تو شاعری ، شاعری نہیں کہلاتی اسی لئے یہ جذبے شاعری بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
نسیم عباس کاشف اُردُو اور پنجابی زبان کا خوبصورت شاعر ہے ۔ نسیم عباس کاشف 12 دسمبر 1974ء کو اوکاڑہ چھاؤنی میں خادم حسین جعفری کے ہاں پیدا ہوئے ۔ اِن کے والد پاک فوج میں بطور حوال دار ملازم تھے ۔ پھر کچھ عرصے کے بعد سر زمین جھنگ کے چک نمبر 166 دوکہ تحصیل و ضلع میں آ کر رہائش پذیر ہوئے اور اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا چند سالوں کے بعد وہاں سے ہجرت کرکے جھنگ کے علاقے موضع دابگر کلیکہ جو کہ جھنگ شہر سے دور دس کلومیٹر سرگودھا روڈ پر واقع وہاں آ کر سکونت اختیار کی ۔ وہاں کے قریبی گاؤں موضع پکے والا کے ہائی اسکول سے مڈل تک تعلیم حاصل کی ۔ آگے کی تعلیم کچھ نجی معاملات و مسائل کی وجہ سے پوری نہ ہو سکی ۔
نسیم عباس کاشف نے 1992ء میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا ۔ اُردو ، پنجابی ادب کی تمام اصناف میں اشعار کہے اور اِن کا کلام ماہنامہ ٫٫ جواب عرض ،، لاہور میں شائع ہوتا رہا ہے ۔
جھنگ کے قریبی دریائے چناب میں 2014ء میں ایک طوفانی سیلاب آیا جس کی وجہ سے موصوف شاعر کا بیشتر کلام اُس دریا کی طوفان کی نظر ہو گیا ۔ اِس بہت بڑے سانحہ نے شاعر کے اعصاب پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ایک طویل عرصہ شاعری کی زندگی تخلیقی سقوط کا شکار رہی اور پھر آہستہ آہستہ دوبارہ سے ذہن ادب کی طرف مائل ہوا اور پھر سے تخلیقی شعری سفر کا آغاز ہوا جو اب تک جاری و ساری ہے ۔ اُس وقت ڈائجسٹ میں چھپنا اعزاز سمجھا جاتا تھا ۔ اس لئے بہت سے لکھتے ان اور ماہناموں میں اپنا کلام چھپواتے تھے ۔ دور افتادہ علاقوں کے لکھے اکثریت چھپتی نہیں تھی جو چھپتے تھے وہ ادبی جرائد و رسائل کی بجائے ان ڈائجسٹوں چھپنا ایک کار نامہ سمجھتے تھے ۔
اب ہم نسیم عباس کاشف کی شعری جہتوں پر بات کرتے ہیں اور اُن کی شاعری مختصر سا ناقدانہ جائزہ بھی پیش کرتے ہیں ۔ اُن کی غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
گرچہ صورت ہی جاودانی ہے
پھر یہ الفت کی کیا کہانی ہے
خواب سارے لُہو لُہو دیکھے
بکھری بکھری میری جوانی ہے
پھول پایا نہ اُن دریچوں کو
رات بچپن کی کیا سہانی ہے
کوئی دا مان نہ ملا کاشف
اُجڑی اُجڑی یہ زندگانی ہے
نسیم کاشف کے ان کے شعروں کو دیکھا اور پڑھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے یہ اُن کے اندر کی وہ ٹوٹ پھوٹ ، سماجی رویوں کے شکار اُن جذبوں کی محرومیوں کا ذکر ہے جن سے انسان صدیوں سے لڑتا آیا ہے ۔ اس میں محبت جھوٹ نفرت بے بنیاد اَنا پرستی کے ان کے کرداروں سے لڑتا لڑتا آخر کار اندر سے کرچی کرچی ہو جاتا ہے ۔
نسیم کاشف بھی انہی رویوں کے ظلم کا نشانہ بنتا دیکھائی دیتا ہے ۔ اُن کے کچھ اور اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں ۔
اُس کی آنکھوں میں اِک تجسّس تھا
تیرگی سا نظارہ اُس کا تھا
کون جانے گا اُس کے رازوں کو
کس طرف وہ اشارہ اُس کا تھا
وہ چلی تھی جو سمت باغوں کے
جیسے منزل کنارہ اُس کا تھا
کیسے ہم راز تم ہو کیسے میرے
یہ سوال ہی دوبارہ اُس کا تھا
نسیم عباس کاشف رومانوی اور جمالیاتی شاعری کے ساتھ ساتھ رثائی ادب بھی جوبصورت انداز میں تخلیق کرتا ہے ۔ ربّ کائنات اُن کے اِن جذبوں کو ہمیشہ زندہ رکھے اور وہ اسی طرح ادب تخلیق کرتا رہے ۔ آمین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |