دو منفرد کتابوں کی تقریب رونمائی
یہ رائے بلکل غلط ہے کہ کتب کا یہ آخری دور ہے۔ اس رائے کو تقویت دینے کے لیئے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے کتابوں کی اہمیت کم ہو رہی ہے، اور آنے والے ادوار میں یہ اہمیت مزید کم ہوتی جائے گی، جس وجہ سے کتابیں بھی بہت کم پڑھی جائیں گی۔ حالانکہ یہ رائے اپنے اندر کوئی معتبر وزن نہیں رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، اور اگر کتاب "پی ڈی ایف” میں بھی ملتی ہے تو وہ بھی کتاب ہی ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آئیندہ پرنٹ میڈیا کی ضرورت کم ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا کتاب کی افادیت اور ضرورت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر پڑھا جائے یا اس کا مطالعہ فون کی سکرین پر کیا جائے، کتاب ان دونوں صورتوں میں "کتاب” ہی رہتی ہے۔
میرے خیال میں آنے والی ہر صدی کتابوں کی ہے۔ اب اگر پرنٹ میڈیا کی اہمیت دھیرے دھیرے کم ہو رہی ہے تو اس کی جگہ پی ڈی ایف لے رہی ہے اور جب مزید جدید ذرائع ابلاغ آ جائیں گے اور پی ڈی ایف بھی نہیں رہے گی تو کتابوں کو پڑھنے کی کوئی نئی اور دوسری صورت سامنے آ جائے گی، مگر کتاب کے مطالعہ کی اہمیت کبھی بھی ختم نہیں ہو گی۔ کتاب تعلیم و تربیت، علم و فضل، سائنس و ٹیکنالوجی اور معلومات کی ترسیل کا ایک مفصل اور معتبر ترین ذریعہ ہے۔ جس قدر مرضی جدید دور آ جائے کتاب کی عظمت دائم قائم رہے گی۔
پاکستان کے سفارت خانہ ابوظہبی میں گزشتہ روز دو کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی۔ ان دونوں کتابوں کی مصنفین خواتین تھیں۔ میں پہلی کتاب کے بارے میں یہ کہوں کہ یہ کتاب ایک بچی نے لکھی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کتاب کا نام "دی ٹرتھ بی ہائینڈ دی ایول” ہے، جس کا اردو ترجمہ میں نے "برائی کی بنیادی حقیقت” کیا ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ دعا فرحان احمد ہیں اور جن کی عمر محض 15 سال ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کتاب کا ٹائٹل بہت چونکا دینے والا ہے یہ عنوان آپ کے ذہن میں کیسے آیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس عنوان کا مفہوم میرے ذہن میں تھا مگر اسے الفاظ کی ترتیب میری ماما نے دی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ کتاب کتنے عرصے میں مکمل کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ کتاب لکھنے میں دو سال لگے جب میں نے یہ کتاب لکھنی شروع کی اس وقت میری عمر 12 سال تھی۔ یہ کتاب 200 صفحات کی ہے جو "شارٹ سٹوریز” پر مبنی ہے جسے انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے۔ اتنی کم عمری میں غیر مادری زبان میں اس قدر دلچسپ اور اہم کتاب کی مصنفہ بن جانا کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔
دوسری کتاب کا نام "گرل ہڈ ڈائریز” ہے جس کی مصنفہ آمنہ منور خان ہیں۔ یہ کتاب بھی انگریزی زبان میں ہے جس کا اردو ترجمہ کرنے میں مجھے مشکل پیش آ رہی ہے۔ انگریزی لفظ "گرل ہڈ” انتہائی خوبصورت اصطلاح ہے جو میں نے پہلی بار پڑھی ہے۔ اس انگریزی لفظ کو پڑھ کر اس کا مفہوم ذہن میں آ رہا ہے مگر اسے اردو زبان میں کیا لکھوں اس کی سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ آپ انگریزی لفظ "بوائے ہڈ” کا ترجمہ "لڑکپن” کر سکتے ہیں جو درست بھی ہے مگر آپ کو کہا جائے کہ "گرل ہڈ” کا درست اردو ترجمہ کریں تو شاید آپ بھی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ بسیار کوشش کے باوجود مجھے اردو میں اس کا ایسا کوئی مناسب لفظ میسر نہیں آیا جو اس کا درست اور بہتر مفہوم بیان کرتا ہو۔ یہ کتاب اڑھائی سو صفحات پر مبنی ہے جس میں خواتین کی شخصیت اور مستقبل کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب کافی حد تک موٹیویشنل ہے، جو خواتین کے لیئے ایک "گائیڈ بک” حیثیت رکھتی ہے۔
کتابوں کی اہمیت کے بارے میں ایک بزرگ مقرر امیر خان صاحب نے اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا جن کا خلاصہ میں نے کتابوں کی اہمیت کی مد میں کالم کے آغاز میں بیان کیا ہے۔ ایک اور کام کی بات امیر خان صاحب نے یہ کہی کہ ہمیشہ اپنی قومی زبان اردو میں بات کریں اور اردو ہی کو پروموٹ کریں کہ دنیا میں ترقی کرنے کا بنیادی راز قومی زبان ہے، جو نئی اور جدید اصطلاحات کو جنم دیتی ہے۔ اس ضمن میں تقریب کے میزبان اور صدر مجلس پاکستان کے سفیر سید فیصل نیاز ترمذی صاحب نے بھی اردو زبان کی نشر و اشاعت پر زور دیا۔ خاص طور پر انہوں نے "اردو بکس ورلڈ” کے ڈائریکٹر سرمد خان اور مجھے سٹیج پر بلا کر، ہم دونوں کی اردو خدمات کو سراہا۔ سرمد خان نے اپنی تقریر میں نومبر کے وسط میں شارجہ میں منعقد ہونے والے "کتاب میلہ” کا ذکر کیا اور حاضرین کو "اردو بکس ورلڈ” کے "جناح پاکستان پویلئین” پر آنے کی دعوت دی۔ گزشتہ ابوظہبی کے کتاب میلہ میں جناح پاکستان پولئین کی منظوری ہوئی تھی۔ شارجہ بک فیئر میں بھی اردو بکس ورلڈ کے لیئے یہی نام منظور کر لیا گیا ہے۔
اس تقریب کے سٹیج سیکریٹری کے فرائض سلمان احمد خان نے ادا کئے جنہوں نے خواتین مصنفین کا تعارف کروانے سے پہلے اقبال کا یہ شعر پڑھا کہ، "وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ،
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں۔” اس تقریب میں ابوظہبی، دبئی اور دیگر ریاستوں سے کثیر تعداد نے شرکت کی، جس میں سینئر صحافی عارف شاہد سمیت دیگر صحافیان شامل ہیں۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں کی تواضح کھانے سے کی گئی۔ پاکستان کے سفیر سید فیصل نیاز ترمذی صاحب آخر تک مہمانوں کے ساتھ رہے۔ یہ سفارت خانہ میں ان کی آخری تقریب تھی۔ ان کا تبادلہ ماسکو میں ہو گیا ہے۔ وہ اب صرف تین ہفتے مزید خدمات انجام دیں گے۔ وہ انتہائی سادہ طبیعت کے شریف النفس سفارت کار ہیں۔ وہ مطالعہ اور علم و ادب کے فروغ سے دیوانگی کی حد تک پیار کرتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں مقیم سمندر پار پاکستانی فیصل نیاز ترمذی صاحب کو تا دیر یاد رکھیں گے۔
گو کہ یہ دونوں کتابیں انگریزی زبان میں ہیں مگر کتابوں کی مصنفین اور دیگر مقررین نے اردو زبان میں تقاریر کیں۔ اردو زبان کا خاصہ ہے کہ یہ ہر زبان کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ ان دونوں کتابوں کے عنوانات منفرد اور فوری توجہ کھینچ لینے والے ہیں۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ اب خواتین مصنفین بھی علم و ادب کے فروغ میں مردوں کے برابر کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |