دھوکے بازوں سے بچاؤ کا حفاظتی انجیکشن!
تحریر: محمد ذیشان بٹ
کیا آپ بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں زندگی میں کئی بار دھوکہ کھانے کی سعادت نصیب ہو چکی ہے؟ کبھی دوستی کے نام پر، کبھی کاروبار کے بہانے، کبھی رشتہ داری کی آڑ میں تو کبھی "صرف آپ ہی کے لیے” جیسے میسج کی شکل میں؟ اگر ہاں، تو دل چھوٹا مت کریں، آپ اکیلے نہیں! آپ جیسے لاکھوں "معصوم” اس دنیا میں دھوکہ کھانے کا تمغہ سینے پر سجائے گھوم رہے ہیں۔
دھوکہ کھانا آج کل ایسا عام ہو چکا ہے جیسے دودھ میں پانی یا سیاسی وعدے میں جھوٹ۔ لیکن عقل مند وہی ہے جو ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد دوسری بار کان کھول کر، آنکھیں کھول کر، بلکہ دل کھول کر دیکھے۔ آخر کار وہی بات ہے: عقل بادام کھانے سے نہیں، دھوکہ کھانے سے آتی ہے!
ہمارے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔” یعنی دھوکہ دینا نہ صرف اخلاقی جرم ہے بلکہ دینی طور پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ دھوکہ کھانے کے پیچھے وہ کون سی چار بڑی وجوہات ہیں جو ہمیں بار بار شکاری کے جال میں لے جاتی ہیں۔
سادگی ایک خوبی ہے، لیکن جب آپ اتنے سادہ ہوں کہ موبائل پر "آپ نے گاڑی جیت لی ہے” کا میسج دیکھ کر خوشی سے چھلانگ مار دیں، تو جناب! یہ سادگی نہیں، ستم ظریفی ہے۔ لوگوں کی باتوں پر فوراً یقین کرنے والے اکثر انہی کی لسٹ میں آتے ہیں جنہیں بار بار بیوقوف بنانا دنیا کا آسان ترین کام سمجھا جاتا ہے۔ یاد رکھیں، ہر مسکراہٹ مخلص نہیں ہوتی اور ہر واہ واہ میں سچائی نہیں چھپی ہوتی۔ وہ انکل جو ہر بار شادی پر یہی کہتے ہیں "بیٹا کوئی کام ہو تو بتانا” لیکن جب قرض مانگو تو ان کے موبائل میں اچانک "No Service” آ جاتی ہے۔
ہمارے ہاں لالچ پر مبنی دھوکے سب سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ "سر! صرف ایک شربت سے سات دن میں دبلے ہو جائیں!” یہ وہ جملہ ہے جسے سن کر وہ حضرات بھی ویڈیو پر کلک کرتے ہیں جن کا وزن 40 کلو ہے، اور وہ بھی جو تین سیڑھیاں چڑھنے کے بعد آکسیجن تلاش کرتے ہیں۔ مبارک ہو! آپ نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ایک لاکھ روپے جیت لیے ہیں۔ رقم حاصل کرنے کے لیے صرف 2500 روپے بھیجیں! اب بھلا جو ادارہ ایک لاکھ دے رہا ہو، وہ 2500 روپے کیوں مانگے گا؟ مگر لالچ دماغ بند کر دیتی ہے اور دھوکہ باز جیب خالی کر دیتا ہے۔
کچھ لوگ تو ایسے اداکار ہوتے ہیں کہ اگر بالی ووڈ میں ہوتے تو امیتاب بچن کی چھٹی کروا دیتے۔ کسی نئے بزنس کا مشورہ دینا ہو، یا رشتے کے لیے آ کر اپنی شرافت کا پرچار کرنا ہو، ایسے لوگ "نیک بننے” کا اتنا زبردست ایکٹنگ کرتے ہیں کہ سامنے والا کہتا ہے، "بس یہی بندہ ہے، باقی سب فریبی تھے!” رشتہ دیکھنے آئے افراد جب کہیں، "ہم تو صرف دین دیکھتے ہیں، دنیا داری ہمارے لیے کچھ نہیں!” تو آپ فوراً سمجھ جائیں کہ اِن کی لسٹ میں پہلا سوال یہی ہوگا: "لڑکی کی تنخواہ کتنی ہے؟”
بعض لوگ خود کو ماڈل سمجھتے ہیں، حالانکہ ان کا آئینہ بھی روز دعا کرتا ہے کہ یا اللہ! نظر نہ لگے۔ اپنی شکل و صورت، ذہانت، یا اہمیت کا ایسا غیر حقیقی اندازہ لگاتے ہیں کہ جو بھی اُن کی تھوڑی سی تعریف کرے، یہ فوراً دام میں آ جاتے ہیں۔ ایک صاحب کو لڑکی نے کہا: "سر! آپ بہت اسٹائلش ہیں۔” بس پھر کیا تھا، اگلے دن وہ صاحب لال چشمہ، چمکدار پینٹ اور ڈھول کی تھاپ پر دفتر آ گئے! جب آپ خود سے لاعلم ہوں گے، تو دوسروں کی چکنی چپڑی باتیں آپ کو بہا کر لے جائیں گی۔ اپنی شناخت اور کمزوریوں کو پہچانیے تاکہ کوئی آپ کو آئینہ دکھا کر آپ سے آپ کا پرس نہ چھین لے۔
اب سوال یہ ہے کہ دھوکے بازوں سے بچا کیسے جائے؟ تو جناب! اس کے لیے چند آزمودہ اصول حاضر ہیں: ہر بات پر فوراً یقین نہ کریں۔ لالچ کی ہر دعوت کو لعنت سمجھیں۔ لوگوں کے الفاظ سے زیادہ ان کے کردار پر غور کریں۔ خود کو پہچانیں، اپنی قدر اور کمزوریوں سے آگاہ ہوں۔ جب بھی کوئی "آفر” دے، تو دماغ ضرور ساتھ رکھیں، صرف دل نہیں۔ یاد رکھیں، دنیا میں جتنا تیز تر ترقی ہو رہی ہے، دھوکہ بازوں کی چالیں بھی اسی رفتار سے جدید ہو رہی ہیں۔ اگر آپ خود کو اپڈیٹ نہیں کریں گے تو آپ کو اپ لوڈ (یعنی لوٹا) کر دیا جائے گا۔
آج اگر آپ دھوکہ کھا رہے ہیں تو یہ آپ کی نرمی اور سادہ دلی ہے، لیکن اگر کل بھی کھائیں گے تو پھر معاف کیجیے گا… یہ صرف آپ کی بےوقوفی ہوگی!
اپنا خیال رکھیں، دھوکہ بازوں سے بچیں، اور کسی کو خود پر ہنسنے کا موقع نہ دیں!

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |