خیبر پختونخوا امن جرگہ کا اعلامیہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
خیبر پختونخوا کی تاریخ ہمیشہ امن و بے چینی کے درمیان جھولتی رہی ہے۔ 1947 کے بعد سے یہ خطہ پاکستان کے دفاعی، سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے نہ صرف فرنٹ لائن پر رہا بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 2001 کے بعد جب افغانستان میں امریکی مداخلت ہوئی تو اس کے اثرات براہِ راست اس صوبے پر پڑے۔ قبائلی اضلاع کی شمولیت کے بعد یہ اثرات مزید گہرے ہوئے۔ ایسے حالات میں امن جرگہ کا قیام دراصل ایک عوامی و سیاسی ضرورت کے طور پر سامنے آیا، جو امن کے قیام کے لیے ایک اجتماعی آواز بننے کی کوشش ہے۔
خیبر پختونخوا امن جرگہ کا حالیہ اعلامیہ 15 نکات پر مشتمل ہے جو صوبے کی موجودہ امن و امان کی صورتِ حال کے تناظر میں نہایت اہم ہیں۔ اس میں دہشت گردی کی مذمت، پولیس اور سی ٹی ڈی کے کردار کو مضبوط بنانے، غیر قانونی محصولات کے خاتمے، معدنیات کی غیر قانونی نکاسی کے خلاف اقدامات، صوبائی مالی حقوق کی بحالی اور وفاق و صوبے کے تعلقات میں ہم آہنگی جیسے موضوعات شامل ہیں۔
یہ اعلامیہ نہ صرف صوبہ خیبرپختونخوا کی سیاسی قیادت کے اتفاقِ رائے کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ایک ایسے بیانیے کی تشکیل بھی ہے جس میں قانون، ادارے اور عوامی نمائندگی سب کو شامل کیا گیا ہے۔
امن جرگہ میں دہشت گردی کے خلاف اتفاق رائے شامل ہے۔ اعلامیہ کا پہلا نکتہ دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ یہ قابلِ تحسین قدم ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ایک آواز میں اس ناسور کے خلاف کھڑی ہیں۔ تاہم، ماضی میں بھی ایسے اعلانات کیے گئے مگر عمل درآمد کے فقدان نے عوامی اعتماد کو متزلزل کیا۔ اس بار اگر صوبائی اسمبلی کو حقیقی طور پر اعتماد میں لے کر قانون کے دائرے میں اقدامات کیے گئے تو نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔
اعلامیہ کے مطابق داخلی سلامتی کی قیادت پولیس اور سی ٹی ڈی کریں گے، جو ایک درست سمت کی نشاندہی ہے۔ ماضی میں یہ ذمہ داری اکثر غیر رسمی یا وفاقی اداروں کے پاس رہی، جس سے صوبائی خودمختاری متاثر ہوئی۔ اب اگر صوبائی حکومت ان اداروں کو مالی اور انتظامی آزادی دیتی ہے تو امن و امان کی بحالی کا ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
اعلامیہ میں بھتہ خوری، غیر قانونی محصولات اور معدنیات کی غیر قانونی نکاسی کے خلاف مربوط پالیسی کی بات کی گئی ہے۔ دہشت گردی کے مالی وسائل ختم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔ اگر حکومت اس معاشی نظام کو منقطع کرنے میں کامیاب ہو گئی تو دہشت گرد نیٹ ورکس خود بخود کمزور پڑ جائیں گے۔
اعلامیہ کے نکات (9) سے (15) تک وفاق و صوبے کے مالی و آئینی حقوق پر زور دیا گیا ہے۔ NHP، Excise Duty، پانی کے حصے، گیس کی ترجیح، NFC ایوارڈ اور تجارتی عملداری جیسے نکات دراصل وہ دیرینہ مطالبات ہیں جنہیں ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ یہ معاملات صرف مالی نہیں بلکہ آئینی اور سیاسی استحکام سے جڑے ہیں۔ اگر وفاق ان مطالبات پر توجہ دیتا ہے تو نہ صرف اعتماد بحال ہوگا بلکہ صوبائی احساسِ محرومی بھی کم ہوگا۔
اعلامیہ میں پاک افغان بارڈر کے تاریخی تجارتی راستے کھولنے اور خارجہ پالیسی میں صوبائی حکومت سے مشاورت کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ نکتہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ خیبر پختونخوا اور افغانستان کے درمیان ثقافتی و قبائلی رشتے بہت گہرے ہیں۔ تجارتی روابط کی بحالی نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرے گی بلکہ عسکریت پسندی کے رجحانات کو بھی کم کر سکتی ہے۔
اعلامیہ میں غیر سرکاری ارکان پر مشتمل امن فورمز کے قیام کی تجویز دراصل عوامی شمولیت کی ایک کوشش ہے۔ اگر ان فورمز میں واقعی سیاسی جماعتوں، خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کی موثر نمائندگی ہو تو یہ جرگے مقامی سطح پر پائیدار امن کے ضامن بن سکتے ہیں۔
اگرچہ اعلامیہ کے نکات جامع اور حقیقت پر مبنی ہیں، لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کے درمیان ہمیشہ ایک خلا رہا ہے۔ امن جرگے کا اعلامیہ اُس وقت موثر ثابت ہوگا جب ہر نکتے پر ٹائم فریم کے ساتھ عملدرآمدی لائحہ عمل بنایا جائے،
صوبائی اسمبلی کی قراردادوں کو سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر نافذ کیا جائے،
عوامی نمائندوں اور سول سوسائٹی کو امن عمل کا حصہ بنایا جائے،
اور سب سے بڑھ کر، وفاق و صوبے کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کی جائے۔
خیبر پختونخوا امن جرگہ کا اعلامیہ ایک اہم پیش رفت ہے جو دہشت گردی، بدامنی، معاشی بدحالی اور صوبائی محرومی کے خلاف اجتماعی مزاحمت کا مظہر ہے۔ اگر اس اعلامیے کو محض کاغذی قرارداد نہیں بلکہ عملی لائحہ عمل کے طور پر اپنایا گیا تو یہ نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔
یہ لمحہ فیصلہ کن ہے کہ آیا خیبرپختونخوا کی سیاسی قیادت ماضی کی طرح اعلانات تک محدود رہتی ہے یا واقعی اس بار امن کو اپنی اجتماعی ترجیح بناتی ہے۔ امن جرگہ اگر سچی نیت، نرمی اور نفع کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھے تو بندوق کی گولیوں سے زیادہ اثر رکھے گی۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |