سعودی عرب کو ناقابل شکست دفاع کی ضرورت
اس وقت سعودی عرب کے دفاعی منصوبوں کے بارے تجزیئے زوروں پر ہیں۔ خاص طور پر اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد خطے میں دفاع کے حوالے سے بہت بڑی شفٹ آئی ہے۔ خلیجی ممالک میں پہلے کی طرح امریکی اثرورسوخ بحال ہو بھی گیا تو تب بھی سعودی عرب اپنے دفاع کے حوالے سے خودمختاری کو ترجیح دے گا، اور اپنے ملک میں ایک ایسی دفاع شیلڈ کھڑی کرنے کی کوشش کرے گا جس سے اس کا دفاع دشمن کو اس پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور کرے۔
سعودی عرب کو پوری اسلامی دنیا میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تقدس کی وجہ سے جو خاص اہمیت حاصل ہے، اب سعودی عرب کے دفاعی ماہرین بھی جان چکے ہیں کہ اسے مزید داو’ پر نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا میں سعودی عرب اسلام کا گڑھ ہے اور اسے اسلامی پیشوائیت کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر دیگر مسلم ممالک میں سعودی عرب کو "نمائندہ رہنمائی” کی "طاقت” حاصل کرنی ہے تو اب اسے "شیر” بن کر زندہ رہنا ہو گا تاکہ دنیا میں کسی بھی ملک کو اس کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہو سکے۔
یہ عالمگیر سچ ہے کہ شیر بھوک سے مر جاتا ہے مگر وہ زندہ رہنے کے لیئے گھاس بھوس سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک لوک کہانی ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو کبھی بھی اصولوں پر مبنی اپنی اعلی حقیقی فطرت سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرنا چاہئے، ورنہ معاشرے میں اس کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ یہ انسانوں، معاشروں اور ملکوں کے معیاری اصول ہی ہیں جو ان کو دوسروں سے منفرد کرتے ہیں۔ جب کوئی ملک کسی مصلحت کی وجہ سے ان اصولوں پر سودے بازی کر لیتا ہے تو پھر نہ صرف لوگوں کے درمیان اس کی عزت گھٹ جاتی ہے بلکہ وہ خود بھی اپنی نظروں کے سامنے گر جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک جنگل میں شیروں کا ایک قبیلہ رہتا تھا۔ اس قبیلے کی قیادت ایک بوڑھا اور باوقار شیر کرتا تھا جسے اپنی حکمت اور غیر متزلزل اصولوں کی وجہ سے جنگل میں سب سے زیادہ عزت حاصل تھی۔
اس بوڑھے شیر کا ایک بیٹا تھا جو اپنے والد سے بہت مختلف تھا۔ اپنی دانست میں وہ بہت تیز طرار، جدید سوچ کا حامل اور حالات کے مطابق ڈھلنے کا قائل تھا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ ہمارے اصول بدلتی دنیا کے ساتھ تبدیل ہونے چاہیئے۔
ایک سال جنگل میں شدید قحط آیا۔ بھوک نے جنگل میں ہر جگہ پنجے گاڑے تو چرند پرند ہجرت کر گئے۔ ہرن اور ہر قسم کا گوشت نایاب ہو گیا۔ نتیجتاً گوشت خور دیگر درندوں کی طرح شیر بھی بھوک سے نڈھال ہونے لگے۔ تب جنگل کی لومڑیوں نے ایک نئی نظریاتی تحریک شروع کی جسے "سبزی خور انقلاب” کا نام دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگل سے ذرا دُور گھاس کا ایک بڑا قطعہ موجود ہے جہاں گھاس چر کر وہ زندہ رہ سکتی ہیں، یُوں انہوں نے تمام گوشت خور جانوروں کو گھاس کھانے کی ترغیب دی۔ اُن کی دلیل تھی کہ "اگر آپ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اپنی فطرت اور اصولوں کو ایک طرف رکھ کر وقتی حالات کو اپنائیں۔”
بوڑھے شیر سردار کا بیٹا لومڑیوں کی دلیل سے متاثر ہو گیا۔ اس نے سردار کے پاس جا کر کہا، "ابا حضور! حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے، اگر ہم نے اپنا طریقہ کار نہ بدلا تو ہم بھوک سے مر جائیں گے لہٰذا ہمیں بھی گھاس کھانی چاہیے۔” بوڑھے شیر نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی سانس لی اور کہا، "بیٹا! میں جانتا ہوں کہ تم اپنے قبیلے کی زندگیاں بچانے کا سوچ رہے ہو مگر کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ گھاس کھا کر تم ‘شیر’ رہ پاؤ گے؟ ہماری پہچان شکار سے جڑی ہے، ہماری نفسیات، ہماری طاقت اور ہمارا وجود اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ہم چرندے نہیں بلکہ شکاری ہیں۔ اگر ہم گھاس چرنا شروع کر دیں تو ہم اپنی پہچان کھو دیں گے۔ لوگ ہمیں شیر کی بجائے بھوک سے نڈھال گھاس خور جانور سمجھیں گے اور ویسے بھی گھاس چر کر ہم میں اور ہرنوں، گائیوں اور بھینسوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟”
اپنی اعلی ظرفی اور بے مثال انفرادی فطرت سے بھاگنا اپنا اور اپنی پہچان کا خاتمہ کرنا ہے۔
اُس دن سردار شیر نے اپنے قبیلے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "ہم بھوک کا سامنا کریں گے مگر اپنے اصولوں کا خاتمہ نہیں کریں گے۔ ہماری بھوک عارضی ہے مگر ہمارا وقار اور دبدبہ ہمیشہ قائم رہے گا۔” بوڑھے شیر کا بیٹا اگرچہ متفق نہ تھا مگر اُس نے اپنے باپ کا حکم مانا۔ اُن سب نے بھوک میں بھی صبر کا مظاہرہ کیا اور ہرنوں کی واپسی کا انتظار کیا۔ کچھ عرصے بعد بارشیں ہوئیں اور ہریالی لَوٹ آنے پر ہرن واپس آنے لگے۔ جنگل کا نظام دوبارہ اپنی اصل حالت پر آ گیا مگر ایک چیز بدل چکی تھی۔ وہ یہ کہ چالاک لومڑیاں جو اپنے نظریے کو درست ثابت کرنے کے لئے گھاس کھا رہی تھیں ان کا جسم کمزور ہو چکا تھا اور وہ اپنی فطری ہوشیاری کے ساتھ شکار کرنے کی صلاحیت بھی کھو چکی تھیں۔
اس کہانی کا سب سے بڑا سبق مسلم دنیا کے لیئے اور خاص طور پر سعودی عرب کے لیئے یہ ہے کہ ان کی حقیقی طاقت اسلام کے عالمگیر اخلاقی اصولوں اور ان کی دفاعی شناخت میں پنہاں ہے۔ نبی پاک ﷺ کی زندگی ہمارے لیئے سب سے بڑا عملی نمونہ ہے جس کے مطابق گھر میں فاقے بھی ہوتے تو تب بھی آپ نبی مکرم ﷺ کے گھر کی دیواروں پر تلواریں لٹکی ہوتی تھیں۔ جس طرح شیر اپنی فطرت کے خلاف گھاس نہیں کھا سکتا ہے اسی طرح ایک بااصول ملک بھی مشکل حالات میں بھی اپنے دفاعی معیار کو نہیں چھوڑتا یے۔ اپنے درست اُصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے وہ خود اپنی نظروں میں گِر جاتا ہے اور اُس کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔
اسلام کا بنیادی اور زریں اصول اپنے دفاع کو مظبوط رکھنا ہے جس کے لیئے جہاد بھی کرنا پڑے تو وہ ہر مسلمان پر فرض ہے، جو کہ اسلامی معاشروں کی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا، "ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔” اس دفاعی اصول کی بنیاد پر آج پاکستان انڈیا کے لیئے ناقابل شکست حیثیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب کے درمیان ہونے والے گزشتہ دفاعی معاہدے کی روشنی میں اسلام کے اس بنیادی اصول کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ دنیا میں زندہ رہنے اور اپنی "اسلامی پہچان” کو قائم رکھنے کے لیئے جہاد اور اپنی دفاعی طاقت کو بڑھانے کے لیئے کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چایئے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کے بعد اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ سعودی عرب اسلام کا قلعہ ہے اور اسے پوری اسلامی دنیا میں ایک روحانی رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔ جب سعودی عرب اپنی دفاعی صلاحیت کو پاکستان کی طرح ناقابل شکست بنا لے گا تو اس کے بعد دنیا میں کسی بھی ملک کو سعودی عرب یا کسی دوسرے مسلمان ملک کی طرف بھی نگاہ بد اٹھانے کی جرات نہیں ہو گی۔ انشاءاللہ!

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |