قوت ارادی، کینسر اور اچھی صحت کا راز
اچھی صحت کو برقرار رکھنے کا ایک دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ قوت مدافعت اور اندر کے انرجی لیول کو قائم رکھنا سیکھ لیں۔ کینسر جیسی خطرناک اور موذی بیماری سمیت بہت سے امراض تب لاحق ہوتے ہیں جب ہمارا نظام مدافعت کمزور پڑتا ہے اور ہمارے خون میں پائے جانے والے سرخ جرثومے بیرونی حملہ آور جراثیم کو مار بھگانے میں ناکام ہوتے ہیں۔ کوئی شخص حفظان صحت کی معلومات کے علاوہ ذہنی طور پر جتنا مضبوط ہوتا ہے اس کا مدافعاتی نظام اور انرجی لیول اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ لھذا ضروری ہے کہ ہم اپنی لمبی اور صحت مند زندگی کے لیئے میڈیکل اور صحت سے متعلق تحاریر گاہے بگاہے ضرور پڑھا کریں۔
بے شک کینسر ایک بہت ہی خوفناک مرض ہے۔ میرے ایک ماموں اور جواں سال پھوپھی زاد بھائی کا انتقال کینسر سے ہوا تھا۔ ان اموات سے کینسر کا نام سن کر بہت خوف سا محسوس ہوتا تھا۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ کسی بھی خوف کو ذہن سازی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ انسانی جسم کے سارے نظاموں کے سوتے دماغ سے خارج ہونے والے پیغامات سے پھوٹتے ہیں جس میں ہمارے ذاتی خیالات و نظریات کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔
بہت سی ایسی کہانیاں پڑھیں اور سنی ہیں جن کے مطابق کینسر کے مریضوں نے اپنی قوت ارادی کو برقرار رکھا اور پھر علاج سے صحت یاب ہو گئے۔ اس میں انڈین کرکٹر یووراج سنگھ بھی شامل ہیں۔ شائد کینسر بزات خود کوئی خاص خوفناک بیماری نہیں ہے جس کی بروقت تشخیص ہو جائے تو محض ایک چھوٹی سی سرجری اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کینسر کا خوف عوام میں بہت زیادہ پھیلایا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے اس سرجری کے بعد جو کینسر کا علاج (کیمو ریڈی ایشن) ہے وہ دماغ میں زیادہ خوف پیدا کرتا ہے۔ کینسر کے مرض میں جب سرجری ہو جاتی ہے اور ٹیومر نکال دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مریض کو کینسر نہیں ہے لیکن اس کے دوبارہ آنے کا کہیں کوئی متاثرہ ٹشو (سیل وغیرہ) کے زندہ رہ جانے کے خدشہ کو دور کرنے کے لئے سرجری کے بعد کیمو فلیج کیا جاتا ہے جو کہ کینسر کے انجیکشنز ہوتے ہیں اور یہ کینسر کی نوعیت کے حساب سے پانچ ہزار سے تین یا چار لاکھ روپے تک ہو سکتے ہیں۔ ریڈی ایشن جسے عام طور پر ”شعاعیں“ کہا جاتا ہے پاکستان میں مریض کو یہ تجویز کی جاتی ہیں اب کینسر کی جو سرجری ہوتی ہے اس سے آپ دو سے پانچ چھ ماہ تک (مرض کی نوعیت کے مطابق) بستر سے اٹھ جاتے ہیں۔ لیکن مریض جب ریڈی ایشن اور کیمو سے گزرتا ہے تو یوں سمجھیئے کہ آپ کسی کنویں سے نکل کر کھائی میں گر گئے ہیں۔
اس دوران خود کو ذہنی طور پر مضبوط نہ رکھا جائے، اندر کے انرجی لیول کو کمزور ہونے دیا جائے یا مریض ادویات کے استعمال میں کوتاہی کر جائے تو یہ کیمو اور ریڈی ایشن اول تو کمزور دل یا پھر ضعیف آدمی کی برداشت کو کم کرتی ہیں یا ریڈی ایشن سرکلز کے بعد مریض اس قابل بھی نہیں رہتا کہ وہ ایک گلاس پانی بھی پی سکے (منہ کے کینسر وغیرہ میں) اور مریض ہمت کر کے پراسیس مکمل کر لے بھی لے تو وہ علاج کے سائیڈ ایفکٹس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے پر بعض اوقات انسان مرنے کا بھی سوچنے لگ جاتا ہے کہ ایسے مرنے سے تو اچھا ہے کہ کوئی آسان موت چن لی جائے۔
اس مرحلے پر مریض کی قوت ارادی اور زندہ رہنے کا جذبہ علاج سے زیادہ اہمیت کر جاتا ہے۔ یہاں مریض کی رنگت سیاہ ہو جاتی ہے۔ جسم کے بال جھڑ یا جل جاتے ہیں۔ منہ میں تھوک ختم ہو جاتی ہے کیونکہ منہ حد سے زیادہ حساس ہو جاتا ہے، مریض ٹھنڈا لے سکتا ہے نہ ہی گرم، پھر مریض کا حلق سکڑ اتنا سکڑ جاتا ہے کہ پینا ڈول کی گولی نگلنا تک مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں صرف مریض کے مضبوط اعصاب کام آتے ہیں۔
قوت مدافعت سے مراد جسم کی نقصان دہ جرثوموں اور زہریلے مادوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت ہے جو بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ نیٹ ورک ہوتا ہے جس میں مختلف اعضاء، خلیات، پروٹین اور ٹشوز مل کر کام کرتے ہیں جو کہ بیکٹیریا، وائرس، پرجیویوں اور فنگی جیسے پیتھوجینز کے خلاف دفاع کرتے ہیں۔
مضبوط قوت مدافعت کے لئے طرز زندگی اور خوراک اہم ہے۔ لیموں کے پھل، بیر، پتوں والی سبزیاں، لہسن، ادرک اور ہلدی جیسی غذائیں قوت مدافعت بڑھانے والی خصوصیات کے لئے مشہور ہیں۔ وہ اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن سی اور ای جیسے وٹامنز سے بھرپور ہوتے ہیں جو مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد کرتے ہیں۔
گو کہ کینسر کے مریض کو خوراک پیس کر لینی پڑتی ہے اور وہ محض مائع خوراک ہی لے سکتا ہے کیونکہ منہ اتنا حساس ہوتا ہے کے مرچ تو دور نمک بھی اس کی چیخیں نکال دیتا ہے، دانت ہلنے لگ جاتے اور کچھ عرصہ بعد یا وہ گر جاتے ہیں یا ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس یاد کے سائیڈ ایفکٹس کوئی دوچار ہفتوں یا مہینوں کے لئے نہیں ہوتے بلکہ سالہا سال اور ڈاکٹرز کے مطابق زندگی بھر بھی ساتھ چل سکتے ہیں۔ آپریشن سے پہلے اگر مریض کا وزن پچاسی کِلو تھا تو وہ گھٹ کر ساٹھ کِلو پر آ جاتا ہے۔ مریض برش نہیں کر سکتا کہ منہ عموما اوپن نہیں ہوتا کہ اس برش داخل ہو سکے اور اگر داخل ہو بھی جائے تو اسے اندر حرکت دینا مشکل ہوتا۔ اس دوران مریض عموما ماؤتھ واش کا استعمال کرتا ہےاور اس حالت میں اگر مریض کو کوئی ہلکا پھلکا نزلہ زکام بھی ہو جائے تو بوجہ کمزوری اسکی جان پر بن آتی ہے۔
اس مرحلے بھی مریض بیماری کے خلاف ڈٹا رہے تو مرض میں کمی آنے لگتی ہے۔ یہاں یہ روداد لکھنے کا مقصد اپنے دوستوں، جاننے والوں اور قارئین تک یہ بات پہنچانی ہے کہ خدارا خود پر رحم کریں اور پان، گٹکا اور سگریٹ وغیرہ سے دور رہیں۔ حتی کہ ہر اس مضر صحت چیز سے کنارہ کشی اختیار کریں جو کینسر یا دیگر کسی بیماری کا باعث بن سکتی ہے۔ صحت ہزار نعمت ہے۔ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کو جہاں خوراک، ورزش اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بہت ہی ایکسٹرا لیول کا حوصلہ، صبر اور برداشت بھی چایئے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |