سعادت حسن آس کا ساتواں نعتیہ مجموعہ ” آبگینہ نور” نور کی سیکڑوں شعاعوں سے قلب و روح کو منور کرتا ہے
نسیم سحر نے کمال کرتے ہوئے ان میں صاحب کتاب کی شخصیت کو بھی زیر بحث لایا ہے
“حرف حرف روشنی” کے ہر لفظ سے پھوٹنے والی روشنی معلومات اور بصیرت کی دنیائیں قارئین کے سامنے وا کر دیتی ہیں
“اردو کی لسانی تشکیلات” میں اردو کے ابتدائی دور سے لے کر اکیسویں صدی کی ابتدا تک کی اردو میں ہونے والی تبدیلیوں کو جامع انداز میں رقم کیا گیا ہے.
انارکلی کی ماں اکبر کے گھر “آیا” تھی. اور اکبر کا بیٹا بھی انارکلی کی ماں کے گھر آیا تھا
“تلاش بہاراں” میں “تلاش معنی” کی تگ و دو کرنا سراب کے پیچھے بھاگنے کے مترادف ہے کیوں کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہیں
رضا علی عابدی نے پرانے ٹھگوں کا طریقہ واردات, عقائد اور معاشرتی حیثیت کو کہانیوں کی شکل میں بیان کیا ہے
مبشر وسیم صاحب ضلع اٹک کے ادبی افق پر “خورشید جہاں تاب” لیے ابھرے ہیں.
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہاں کی ثقافت کی حدود کا تعین آج تک نہیں ہو سکا. قائد کے آنکھ بند ہوتے ہی وہ خواب بکھر گیا جو اقبال نے دیکھا
. پیر نصیر الدین نصیر رحمہ اللہ کا رنگ بھی واضح دکھائی دیتا ہے. عاصی اردو کی کلاسیکل روایت سے لابلد نہیں ہے