کیمبل پور سے اٹک تک – 4

تحریر: سیدزادہ سخاوت بخاری

تیسری قسط میں ہم سول ھسپتال تک پہنچے تھے ، جسےشھر کے وسط سے بہت دور ، ویرانے میں تعمیر کیا گیا ، بڑے بوڑھے اور بزرگ اس بات پہ حکومت سے سخت نالاں تھے کہ مریضوں کا وھاں تک چل کر جانا ممکن نہیں ۔ یاد رہے ، یہ دور ، پیدل چلنے، جانوروں پہ اور سائیکل سواری کا تھا ، سب سے بڑی سواری تانگہ ہوا کرتا تھا لیکن تانگے کا کرایہ کون دے ۔عام آدمی کی تنخواہ 80 سے 100 روپے تک تھی ، اگرچہ اشیائے ضرورت کے نرخ بھی اسی حساب سے کم تھے ، تاھم تانگہ بک کرنا ، امارت، عیاشی یا مجبوری کے ذمرے میں آتا تھا ۔ عام حالات میں لوگ پیدل چلنےکو ترجیع دیتے تھے ۔ اس دور کی تصویر کشی میں نے اپنے مضامین بعنوان ” جو ہم نے دیکھا ” میں کرنے کی کوشش کی ہے ، چند قسطیں سوشل میڈیا کی نظر کرچکا ہوں ، بوجوہ جاری نہ رکھ سکا ، اب اس سیریل کی تکمیل کے بعد ، اسے بھی آگے بڑھانے کا ارادہ ہے ۔ واپس چلتے ہیں شھر کی ھیئت کی طرف ، چھوئی روڈ کے شمالی علاقے کی سیر آپ نے کرلی ، جو پرانے شھر سے عید گاہ تک تھا ، اب چلتے ہیں ، جنوب کی طرف ، مغرب میں ملٹری فارم المعروف ڈیری فارم سے لیکر گورا قبرستان یا فتح جنگ روڈ تک کی آبادی کا نقشہ کیا تھا ۔ یہاں اگر میں شھر کی اس وقت کی حدود کا تعین کردوں تو آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ شمال میں محلہ مہر پورہ کی مختصر آبادی سے شروع ہوکر ، جنوب میں محلہ امین آباد کی گنجی ، بے ترتیب اور بلدیاتی قوانین سے ماوراء آبادی ، مشرق میں آرٹلری سینٹر اور ایڈمنسٹریشن بلاک سے شروع ہوکر مغرب میں ریلوے لائین یا عیدگاہ محلہ تک کو شھر کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ چھوئی روڈ کا جنوب :شھر کی حدود میں قدرے اضافہ کرتے ہوئے ، عرض ہے کہ ریلوے لائین کی شین باغ سمت پہ ، سڑک کے جنوب میں جو فوجی احاطہ ہے ، یہاں انگریز کے زمانے میں کیمل کور Camel Core یا اونٹوں والی فوج مکین تھی ، جس کے پاس اونٹ گاڑیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ہمارے بچپن تک یہ اونٹ گاڑیاں سڑکوں پہ رواں دواں نظر آتی تھیں ۔ تقریبا15 یا 20 فٹ طویل لکڑی کی بنی ریڑھہ نماءگاڑی ، جس کے آگے اونٹ جوت کر ، غیر جنگی ساز و سامان ، مثلا راشن ، گھاس وغیرہ ادھر سے ادھر منتقل کیا جاتا تھا ۔ یہ کیمل کور انگریز دور کا تھا ، بعد میں اس کی نوعیت بدل گئی ، اونٹ رہے نہ اونٹ گاڑیاں ۔ اسی کیمل کور کی مخالف سمت پہ ایک دوسرا فوجی احاطہ اسلام لائن کے نام سے قائم ہے ۔ یہ بعد کی پیداوار ہے ۔ جس جگہ اسلام لائین ہے ، یہاں کبھی ، ہمارے لڑکپن میں ، پاکستان ٹوبیکو کمپنی کا تمباکو خریداری مرکز تھا ۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ، اس زمانے میں ، شین باغ ، سروالہ ، ڈھیر ، جابہ ، بروٹھہ ، دکھنیر ، کرم علیا اور آس پاس کے دیہات میں کاشتکار ، اپنی چاھی زمینوں میں سگرٹی تمباکو کاشت کرتے تھے ، جسے اونٹوں ، خچروں ، بیل گاڑی اور دیگر جانوروں پہ لاد کر شین باغ کے نواع میں اس خریداری مرکز تک لایا جاتا تھا ۔ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے ، وقت نے کروٹ لی ، کاشتکاروں نے تمباکو کاشت کرنا بند کردیا لھذا ، برطانوی مالکان پہ مشتمل ، پاکستان تمباکو کمپنی اس خریداری مرکز کو بند کرکے رخصت ہوگئی ۔ یہ زمین شین باغ کے حمید اکبرخان کے خاندان کی ملکیت تھی ، ایک عرصے تک بند رھنے کے بعد کیمل کور کی توسیعی ضرورت کے تحت ، فوج کو فروخت کردی گئی اور اب اسے اسلام لائین کے نام سے جانا جاتا ہے ، ورنہ شروع میں یہ تمباکو کمپنی کے نام سے مشھور تھی ۔ آئیے اب ریلوے لائن اور پھاٹک کراس کرکے چلتے ہیں ، ڈیری فارم کی طرف اور جائزہ لیتے ہیں کہ ڈیری فارم سے گورا قبرستان تک ، سڑک کی اس جانب کیا صورت حال تھی۔ ریلوے لائن کراس کرتے ہی جنوبی سمت پہ ایک مسجد ہے ، جو شھر کے معروف سنار مکھن نے ہمارے بچپن میں تعمیر کرائی ،کوئی نصف صدی کا قصہ ہے ، زیادہ پرانی بات نہیں ۔ اس سے آگے ڈیری فارم کی حدود شروع ہوتی ہے ،آرٹلری سینٹر وغیرہ کی دودھ دہی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ، یہ ملٹری فارم غالبا سن ساٹھ کی دھائی میں قائم کیا گیا ۔ اس کا صحیح سن تعمیر ، فارم کے میں گیٹ پہ لکھا ہے ، مجھے اس وقت یاد نہیں آرھا ، البتہ اس کی تعمیر سے پہلے ، ہم بچے اس جگہ کھیلا کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے ، کبھی کبھی “کتوں کی لڑائی ” جسے ہم اپنی بولی میں “کتیاں نا بھیڑ ” کہتے ہیں ، اس خالی زمین پر منعقد ہوتا تھا ۔ ڈیری فارم کے عقب سے لیکر ماڑی گاوں تک کوئی آبادی نہ تھی البتہ بعد میں شھر کے معروف ٹھیکیدار میاں غلام ربانی نے فارم سے ھٹ کر ماڑی گاوں کی سمت ، ریلوے لائین سے متصل ایک وسیع رقبہ ، موضع ماڑی کے مالکان سے خرید کر ، زرعی فارم بنوایا ، جسے عرف عام میں ” ربانی نا کھوہ ” کہا جاتا تھا ۔ موجودہ ماڑی روڈ پہ جائیں تو سابقہ 7 نمبر چونگی کا علاقہ آتا ہے ۔ فارم کی دیوار کے ساتھ مغرب کی طرف جو آبادی ہے ، اس کا بیشتر حصہ ، ربانی کے کھوہ کی زمین پر مشتمل ہے ۔ ادھر آجائیں ، ماڑی موڑ کی طرف تو ، ماڑی موڑ نام کا کوئی موڑ کیمبل پور شھر میں موجود نہ تھا ۔ ماڑی گاوں جانے کے لئے تاریخی راستہ بجلی گھر روڈ تھا جو محلہ امین آباد سے ہوتا ہوا ، پگڈنڈیوں کی شکل میں ماڑی تک جاتا تھا ۔ ماڑی موڑ اور ماڑی گاوں کی سڑک نہ تھی لیکن اس راستے کی مشرقی سمت پہ ، طولا ، ایک پرانی بے ترتیب آبادی ٹوٹے پھوٹے گھروں پہ مشتمل ، موجود تھی ۔ آبادی کے ساتھ ساتھ زرعی زمینں اور کئی کھوہ تھے جو یہاں سے شروع ہوکر ، نشیب کی طرف سے ایک ھالہ بناتے ہوئے ، محلہ امین آباد ، شاہ آباد ، سمندر آباد ، کربلاء محلہ اور ڈھوک فتح تک ، ایک سرسبز و شاداب وادی کا نظارہ پیش کرتے تھے ۔ ” وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہااور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا”کیمبل پور کا یہ جنوبی حصہ ، علاقہ چھچھ جیسی شادابی اور خوبصورتی کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ، تاذہ اور صحت افزاء سبزیوں کا مرکز تھا ۔ شھر بھر کی سبزی کی ضروریات اس چھوٹے سے دائرے سے پوری ہوتی تھیں لیکن ، دولت کی حرص اور لالچ یا نادانی نے اسے ، اینٹ اور گارے کے بے ھنگم سمندر میں غرق کردیا ۔ کہاں گئے وہ لہلہاتے کھیت ، رھٹ کی آوازیں ، بیلوں کے گلوں میں معلق گھنٹیوں کی ٹناٹن ، بیل گاڑیاں ، محلہ شاہ آباد اور پنڈ غلام خان کے جھرنے ، سب کے سب بڑھتی آبادی کے بوجھ تلے دب گئے ۔

(جاری ہے )

iattock
سیّدزادہ سخاوت بخاری
تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مابولی - 21 فروری مادری زبان کا عالمی دن

اتوار فروری 21 , 2021
زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔
imran asad

مزید دلچسپ تحریریں