مابولی – 21 فروری مادری زبان کا عالمی دن

تحریر: عمران اسؔد

رسُول حمزہ تَوف (روس کے عالمی شہرت یافتہ مصنف) ”میرا داغستان“ میں لکھتے ھیں کہ ، ”میری مادری زبان ”آوار“ ھے اگرچہ میں رُوسی میں شاعری کرتا ھُوں اور ھمارے ھاں ایک گالی ایسی ھے جس پر قتل ھو جاتے ھیں کہ ”جا تُو اپنی مادری زبان بھول جائے“۔

بقول رسُول حمزہ صرف ستر ھزار افراد آوار زبان بولتے ھیں۔ رسُول حمزہ توف ایک مرتبہ پیرس کے کسی ادبی میلے میں شریک ھُوئے اور اُن کی آمد کی خبر پا کر ایک مصّور اُن سے ملنے آیا اور کہنے لگا کہ ، ”میں بھی داغستان کا ھُوں۔ میری مادری زبان آوار ھے اور اب ایک مدت سے پیرس میں رھائش رکھتا ھُوں۔ ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کر کے یہیں کا ھو چکا ھُوں۔ میں داغستان کے فلاں گاؤں کا رھنے والا ھُوں لیکن شاید تیس برس ھو گئے میں یہاں فرانس میں ھُوں۔ جانے میری ماں زندہ ھے یا مر چکی ھے۔

رسُول حمزہ تَوف نے داغستان واپسی پر اُس کی ماں کو تلاش کر لیا اور اُس بڑھیا کو علم ھی نہ تھا کہ اس کا بیٹا ابھی تک زندہ اور فرانس میں خوش و خرم ھے تو اس نے رو رو کر بُرا حال کر لیا۔

رسول سے پُوچھنے لگی کہ ، ”مجھے بتاؤ کہ اُس کے بالوں کی رنگت کیسی ھے؟؟ اس کے رخسار پر جو تِل تھا کیا اب بھی ھے، اس کے بچے کتنے ھیں؟؟.

اور پھر یکدم اُس بڑھیا نے پوچھا ”رسُول تم نے میرے بیٹے کے ساتھ کتنا وقت گزارا“ ؟

”ھم صُبح سے شام تک بیٹھے کھاتے پیتے رھے اور داغستان کی باتیں کرتے رھے، رسول نے جواب دیا“۔

اور کیا تم یہ تمام عرصہ آوار زبان میں باتیں کرتے رھے؟

”نہیں ھم فرانسیسی میں باتیں کرتے رھے۔ شاید تمہارا بیٹا آوار زبان بھول چکا ھے“۔

داغستانی بڑھیا نے اپنے سر پر بندھا رومال کھول کر اپنے چہرے پر کھینچ کر اُسے روپوش کر لیا کہ وھاں روایت ھے کہ جب کسی ماں کو اپنے بیٹے کی موت کی خبر ملتی ھے تو وہ اپنا چہرہ ڈھانپ لیتی ھے۔

بڑھیا روتے ھُوئے بولی ، ” رسُول ، اگر وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ھے تو میرے لیے وہ زندہ نہیں ، مر چکا ھے۔”

جی ہاں زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ اس طرح زبان انسان کی تمام پچھلی اور موجودہ نسلوں کا ایک قیمتی سرمایہ اور اہم میراث ہے۔ زبان ایک ایسے لباس کی طرح نہیں ہے کہ جسے اُتار کر پھینکا جاسکے بلکہ زبان تو انسان کے دل کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہوتی ہے۔ یہ خیالات کی حامل اور آئینہ دار ہی نہیں ہوتی بلکہ زبان کے بغیر خیالات کا وجود ممکن نہیں۔ مادری زبانوں کے ہر ہر لفظ اور جملے میں قومی روایات‘ تہذیب و تمدن‘ ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں‘ اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات‘ اس کی تہذیب‘ اس کی تاریخ‘ اس کی قومیت۔۔ سب کچھ مٹ جائے گا۔بلاشبہ مادری زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے‘ اسی لیے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے ۔ قومیتی شناخت اور بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلّمہ ہے۔ چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگا رنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم‘ رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہے۔اس وقت کرۂ ارض پر انسان چھ ہزار سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں مگر ان مادری اور مقامی زبانوں کو چند زبانوں کے وائرس سے شدید خطرات لاحق ہیں اس سے عالمگیریت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ عالمی امن کے لیے مادری اور مقامی زبانوں کا تحفظ و احترام ناگزیر ہے تاکہ لسانی رنگارنگی سے برداشت و رواداری کا کلچر فروغ پائے۔

مابولی آپ کے پاس ایک امانت ہوتی ہے جو آپ نے آنے والی نسلوں کو سونپنا ہوتی ہیں میرے نزدیک ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ بھی اپنی مادری زبان میں بات کریں تاکہ ہمارے بچے بھی اپنی مادری زبان کے ساتھ متعارف ہوکر بہتر طریقے سے اپنی ثقافت، روایات، رہن سہن اور رسم و رواج کو سمجھ کر ان پر فخر کرسکتے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ جہاں اللہ پاک نے ہمارے وطن عزیز کو انگنت نعمتوں سے نوازا ہے وہیں پر مختلف علاقوں میں بولی جانے والی خوبصورت زبان بھی ہیں جو کے ہمارے سوتیلے پن اور نام نہاد سماجی رویوں کے باعث بڑی تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہیں. اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ مادرِ وطن میں مادری زبانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک عام ہے اور ہم نے عصری اور عالمی فکر و دانش سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ متحدہ پاکستان میں لسانی مسئلے سے دنیا بھر نے سبق سیکھ لیا اور عالمی سطح پر مادری زبانوں کا دن منایا جاتا رہے گا‘ مگر ہم آج بھی لسانی رنگارنگی کی مہک سے محروم اور زبانوں کے مسئلے کا شکار ہیں۔ ہم سے سبق سیکھ کر کئی ممالک نے اپنی لسانی پالیسیوں کو ازسرِ نو مرتب کیا اور اب بہت سے ممالک اپنے علاقوں میں روایتی طور پر نظرانداز کی جانے والی یا خطرات سے دوچار زبانوں کو تحفظ اور فروغ دے رہے ہیں۔ جبکہ ہم آج بھی علاقائی‘ مادری اور قومی زبانوں کی کشمکش سے دوچار ہیں- عوام کا دل موہ لینے کے لیے عوام ہی کی بولی کارکرگر ہو سکتی ہے۔ ہم نے علاقائی اور مادری زبانوں سے جس سوتیلے سلوک کو روا رکھا‘ اُس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ آج ہم تہذیبی شناخت اور تاریخی سانجھ سے محروم ہو کر قومیتی مسائل میں دھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے لسانی مسئلے کو غیرفطری طور پر حل کرنے کی کوشش کی اور قوم کو اپنی اپنی علاقائی زبانوں سے محروم کرنے کا جبر روا رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری قوم نے کھرے‘ سچے اور سماجی تناظر میں سوچنے کے بجائے غیروں کی زبانوں سے غیروں کے انداز میں سوچنا شروع کر دیا بلاشبہ پھولوں کی رنگارنگی گلدستے کا حُسن اور طاقت ہوتی ہے‘ قباحت اور کمزوری نہیں۔ جس قوم کو اپنی کوئی چیز اچھی نہ لگے اور دوسروں کی ہر ادا پر فریفتہ ہو‘ وہ کیا زندہ رہ سکتی ہے۔ قوم بے جان افراد کے مجموعے کا نام نہیں ہوتا‘ بلکہ قوم معتقدات‘ تاریخ‘ عصبیت‘ ثقافت اور انفرادیت پر اِصرار سے ہی وجود میں آتی ہے اور استحکام حاصل کرتی ہے۔ مذکورہ قومی عناصر کے اظہار کا اہم ذریعہ زبان ہی تو ہوتی ہے۔ جب لوگوں سے اُن کی زبان چھین لی جائے تو ان سے سب کچھ چھین لینے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ ہمیں بھی قومی یکجہتی کے گلدستے کی تشکیل کے لیے زبانوں کی رنگارنگی کو اہمیت اور فروغ دینا ہو گااپنی ماں کو حقیر اور چھوٹا سمجھنے والے اپنے آپ کو اور اپنی تہذیب کو بھی کم تر اور حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور جن کی تہذیب حقیر ہو‘ وہ زمانے میں معتبر نہیں ہو سکتے- 21فروری کو ہر سال منعقد ہونے والا مادری زبانوں کا عالمی دن ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہم کب تک اپنی مادری زبانوں سے یہ سلوک جاری رکھ سکتے ہیں

مستنصر حسین تارڑ کی کتاب’ میرا داغستان” سے اقتباس

آج ما بولی نےعالمی دیہاڑے اُتے سارے سنگیاں آں مینڈھی طرفو مبارک باد  پیش اے تے اپنے علاقے پنڈی گھیب ضلع اٹک نے گھیبی لہجے وچ  لکھی ہوئی اک نظم تے دو ماہیے-

نظم

ویلے نی گل

اُچے لمبے گِھن کے ڈھانگے

نَسنے پے ون جاکت پرو وانے

دِھیان سارا کنکوئے اُتے

نِکا ہووے یا کوئی وَڈا

جِس وی پہلے نپی ڈور

اُچا جَیا لا کے ہانگرا

“چھوڑ دیس اؤۓ نَپ گِھدا

سارے نسنیاں نسنیاں رُک گئے

نہ کوئی چِھینا جھپٹی ویکھی

نہ کوئی مار کُٹائی

میں ہکلّا اجھ کے سوچاں

ہُن کیوں حق کئیں ناں نہ منینے آں

سب کچھ لوکاں کول اے وت وی

حق ہر اک ناں پے کھسینے آں

ماہیے

کوئی گڈی پنڈی گھیب نی اے

سجن تاں بہوں لبنے ساری گل بس جیب نی اے

بوکر دے ویڑے

ساڑ اِناں دشمناں آں

تھوڑا ہو کے اجھ نیڑے

عمران اسؔد

عمران اسد
عمران اسؔد پنڈیگھیب حال مقیم مسقط عمان

Website | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مادری زبان

اتوار فروری 21 , 2021
پاکستان میں سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان پنجابی ہے۔ زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
photo of woman and her children lying on bed

مزید دلچسپ تحریریں