مصنوعی انسانی مشینوں کے خطرات

مصنوعی انسانی مشینوں کے خطرات

Dubai Naama

مصنوعی انسانی مشینوں کے خطرات

مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس Artificial Intelligenceکی مسلسل ترقی انتہائی خطرناک ہے۔ ہالی وڈ کی سائنس فکشن فلموں میں آپ نے اکثر دیکھا ہو گا جن میں انسان کی بنائی ہوئی مشینیں انسان ہی پر حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ گو کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال سائنس اور ٹیکنالوجی کا ایک پرآسائش حیرت انگیز انقلاب ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب انسان اپنی ذہانت کو بے جان اور احساس سے محروم روبوٹس میں منتقل کرے گا تو خود اس کا مستقبل غیرمعفوظ ہو جائے گا۔

مشہور برطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے سب سے پہلے مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کو انسانیت کیلئے خطرہ قرار دیا تھا۔ حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence سنہ 2025ء تک ساڑھے 8کروڑ افراد سے روزگار چھین لے گی۔ اگرچہ آرٹیفیشئل انٹیلیجنس سے نئے روزگار بھی پیدا ہونگے اور ماہرین اِسے مستقبل کی کھربوں ڈالر کی انڈسٹری قرار دے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپیوٹر سائنس کا وہ شعبہ ہے جو انسانی ذہن کو بائی پاس کر کے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے والی مشین تیار کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا اصل مقصد ایسی مشینوں کی تیاری ہے جو بالکل انسانوں کی طرح سوچنے، سمجھنے اور سیکنڈوں میں انسانی ہدایت پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں جس کی زندہ مثال انسانوں کے معاشرے میں مصنوعی انسانی روبوٹس کی صنعت کو فروغ دینا ہے۔

آرٹیفیشئل انٹیلیجنس Artificial Intelligence کا نظریہ سب سے پہلے مشہور امیریکن کمپیوٹر سائنٹسٹ جان میکارتھی (4ستمبر 1927- 24اکتوبر 2011) نے سنہ 1956ء میں پیش کیا تھا۔ مصنوعی ذہانت کے ماہر ڈاکٹر کروز ویل کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت ہمارے دماغ کو ایم آر آئی کے ذریعے پڑھ کر اسے مختلف کوڈ اور الیکٹرونکس سرکٹ سے منسلک کر دے گی اور 2030ء تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال سے مشینیں انسانی ذہن سے زیادہ ذہین اور تیز ہو جائیں گی اور ہم انسانی دماغ کو الیکٹرونک ذرائع سے پڑھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ممکن ہے مصنوعی ذہانت کی اس ترقی سے انسان کی پرائیویٹ اور ذاتی زندگی ختم ہو جائے، دنیا میں کوئی راز راز نہ رہے یا اس سے انسان مصنوعی ذہانت کی ایک نئ سرد جنگ میں داخل ہو جائے۔

آج کل مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کی روبوٹ لڑکیاں ماحول کو سمجھتے ہوئے انسان سے بات چیت، سوالوں کے صحیح جواب اور ہدایات پر عمل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ گوگل انٹرنیٹ سرچ انجن، انگلیوں اور چہرے کی بائیومیٹرک، میزائل ٹیکنالوجی، صنعتی آٹومائزیشن، تھری ڈی، ورچوئل گیمز اور دیگر مہلک ہتھیار آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مرہون منت ہیں۔ سوشل میڈیا اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں میں مصنوعی ذہانت حاوی ہوتی جا رہی ہے اور اس ٹیکنالوجی کو اپنا کر انسان اپنی ذاتی صفات ترک کرتا جا رہا ہے۔

حال ہی میں یورپی یونین نے لوگوں کے فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے ذاتی ڈیٹا کی خلاف ورزیوں پر میٹا کو چار سو تیرہ ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت اور میٹا ویژن ہماری دنیا کو کس خطرناک حد تک بدل سکتے ہیں!

دنیا تیزی سے چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس Artificial Intelligence کے ذریعے دنیا میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف چین اپنی قومی سلامتی کے دفاع کیلئے فوجی سرگرمیوں میں آرٹیفشل انٹیلیجنس اور 5جی کا استعمال کر رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ کی فیس بک، واٹس اپ اور ٹویٹر جیسی کئی بڑی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے ذریعے منٹوں میں کروڑوں افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کی بنیاد پر اہم پالیسیاں بنانے کے قابل ہو گئی ہیں۔

مصنوعی ذہانت کے ممکنہ نقصانات میں غلط اور گمراہ کن معلومات کا تیز رفتاری سے پھیلاؤ، تعصب اور تفریق میں اضافہ، نگرانی اور نجی اخفا میں مداخلت، دھوکہ دہی اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیاں شامل ہیں۔

پروفیسر این وائے، پروفیسر یو کے اور یان لیکیون کو اکثر مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کے اس شعبے میں ان کے اہم کارناموں کی وجہ سے ’مصنوعی ذہانت کے گاڈ فادرز‘ کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے۔ ان تینوں پروفیسرز نے مشترکہ طور پر سنہ 2018ء کا ’ٹوئرنگ ایوارڈ‘ جیتا، جو کمپیوٹر سائنس میں ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ تاہم پروفیسر لیکیون، جو کہ میٹا میں بھی کام کرتے ہیں نے کہا ہے کہ اس حوالے سے جاری کیئے جانے والے انتباہ ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ اوپن اے آئی اور گوگل ڈیپ مائنڈ کے سربراہان سمیت متعدد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانیت کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ درجنوں افراد نے سینٹر فار اے آئی سیفٹی کے ویب پیج پر شائع ہونے والے ایک بیان کی حمایت کی ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ “مصنوعی ذہانت سے انسانوں کے خاتمے کے خطرے کو کم کرنا دیگر سماجی سطح کے خطرات جیسا ہے کہ وبائی امراض اور ایٹمی جنگ کے ساتھ ساتھ ایک عالمی ترجیح ہونی چاہیے۔” چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹیو سیم آلٹ مین، گوگل ڈیپ مائنڈ کے چیف ایگزیکٹیو ڈیمس ہسابیس اور اینتھروپک کے ڈاریو آمودی سبھی نے اس بیان کی حمایت کی ہے۔

سینٹر فار اے آئی سیفٹی ویب سائٹ کئی ممکنہ تباہی کے منظر ناموں کو کچھ اس طرح پیش کرتی ہے: “مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کو ہتھیار بنایا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر، منشیات کی دریافت کے اوزار کیمیائی ہتھیار بنانے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں، مصنوعی ذہانت اے آئی کی طاقت تیزی سے چند ہاتھوں تک مرکوز ہو سکتی ہے، جس سے حکومتوں کو وسیع نگرانی اور جابرانہ سنسرشپ کے ذریعے تنگ نظر اقدار کے نفاذ کے قابل بنایا جا سکتا ہے اور انسانوں کا مصنوعی ذہانت پر ضرورت سے زیادہ انحصار انسانوں کو دماغی طور پر کمزور کر سکتا ہے جیسا کہ فلم وال ای میں دکھایا گیا ہے۔

آرٹیفیشئل انٹیلیجنس کی اس پیچیدہ وار کو نہ سمجھنا یا اس میدان میں ترقی نہ کرنا اسے سمجھنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت اور میٹا کی دنیا بذات خود ایک صنعتی انقلاب ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان اس میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور میٹا کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پی ڈی ایم کے گزشتہ دور حکومت میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سنگاپور میں میٹاورس کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا تھا اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی کیونکہ اس شعبے میں فروغ اور سرمایہ کاری کے بغیر پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہمیں مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے صنعتوں سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں مہارت حاصل کرنا ہو گی جو کہ مستقبل کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ آرٹیفیشئل انٹیلیجنس ہومینائڈ کمپیوٹرز کا عہد ہے جس کو سیکھنے میں انسانیت کی بقا ہے۔ روبوٹک کمیونٹی انسانیت نہیں۔ انسانیت احساس کا نام ہے جو انسانوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ کمپیوٹر تو محض بے جان لوہے، پیتل اور ربڑ وغیرہ کی تاروں سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔

Title Image by enio from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

نورین خان کا افسانہ "چارہ"

پیر اپریل 1 , 2024
“چارہ” نورین خان کی ایک پُرجوش اردو مختصر کہانی ہے جو بارش کے دن کے پس منظر میں سامنے آتی ہے۔ مرکزی کردار
نورین خان کا افسانہ “چارہ”

مزید دلچسپ تحریریں