حریم زیست میں تمام تر رنگینی و رعنائی الفاظ کی صوتی ترنگ سے ہے۔ انسانی جزبات کے اظہار میں الفاظ کے عمل دخل سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ انسانی نفسیات، تہذیب اور تخیل کی اڑان سب الفاظ کی صوتی ترنگ سے ہی وابستہ ہے۔

ایک عجیب سی کیفیت تھی جیسے خواب میں کسی مانوس سی طلسماتی دنیا میں آگیا ہوں اور اس کیفیت میں بہتا چلا جا رہا ہوں ۔

آج سے ہمارے خالصہ کا نام سنگھ ہو گا۔سنگھ کا مطلب ہے شیر۔پھر اپنا نام گوبند رائے کی بجائے گوبند سنگھ رکھا۔پراتن جنم ساکھی بھائی بالا مترجم گیانی سوہن سنگھ وڈالوی مطبوعہ امرتسر میں گورونانک جی ،بابا ولی قندھاری وجہ تسمیہ گوردوارہ پنجہ صاحب کا واقعہ بڑی تفصیل سے لکھا ہوا ہے

عشق جب مزید اوجِ ثریا کی طرف محو پرواز ہوتا ہے تو محبوب کے قدموں کی خاک عاشق کو پیاری لگتی ہے اور وہ اس سے بھی بہارِ ضو کشید کر کے شفا یاب ہوتا ہے چشمِ امواجِ بقا نبی اکرمؐ کے عشق پر سید محمد نور الحسن کا دعوی بھی مودت کی ایک کڑی ہے جسے انتہائی شائستگی سے یوں بیاں کرتے ہیں :-

ہماری نئی نسل تاریخ سے آگاہ نہیں ۔ نصابی کتابوں میں بھی اس بات کی کوشش نہیں کی گئی کہ آنیوالی نسلوں کو حقائق سے روشناس کرایا جاسکے ۔ یہی نہیں بلکہ 1971 کے بعد سے پاکستان میں جس سیاسی طرز عمل اور سوچ نے اودھم مچایا ، اس کے نتیجے میں سچ اور جھوٹ گڈ مڈ ہوکر رہ گیا اور آج کا ہمارا نوجوان یہی سمجھتا ہے کہ جنرل نیازی ڈرپوک تھا