کیا بلاول بھٹو زرداری تاریخ دہرائے گا؟
یہ سنہ 1993ء کے جنرل الیکشن تھے۔ تمام معاصر اخبارات بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے عنوان سے تجزیئے شائع کر رہے تھے کہ دیکھتے ہیں کہ ان دونوں امیدواروں میں سے کون وزیراعظم بنتا ہے؟ یہ الیکشن پیپلزپارٹی نے جیتا اور محترمہ بےنظیر بھٹو دوسری بار ملک کی وزیراعظم بن گئیں۔ لیکن 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے سے واپسی پر محترمہ بے نظیر بھٹو دشمن عناصر کی فائرنگ سے شہید ہو گئیں اور ان کی سیاست کا باب ہمیشہ کے لیئے بند ہو گیا۔
یہ سنہ 2023ء ہے اور الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ اگلے عام انتخابات 8فروری 2024 کو منعقد ہونگے۔ میاں محمد نواز شریف 4سال بعد 21اکتوبر کو چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بننے کی امید پر وطن واپس پہنچے اور لاہور کے اپنے پہلے جلسے کے بعد انہوں نے 14نومبر کو بلوچستان کا دو روزہ دورہ کیا جس سے وہ 30الیکٹیبلز کو نون لیگ میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چونکہ 9مئی کے ملک دشمن واقعات کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کے اس الیکشن میں کوئی معرکہ مارنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے تو بظاہر آئندہ الیکشن میں سیاسی جیت کا مقابلہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہے۔
اس سیاسی منظر نامہ کے پیش نظر یہ قوی امکان ہے کہ 1993 میں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان وزارت عظمی کے مقابلے کے 30سال بعد اس دفعہ وزارت عظمی کی دوڑ میاں محمد نواز شریف اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہے۔ وزیراعظم بننے کی یہ سیاسی مسابقت اپنے اندر پوری ایک “نسل” کا فرق لئے ہوئے ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی عمر 74سال ہے جبکہ بلاول بھٹو کی عمر محض 35برس ہے۔ بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں جس کی بنیاد ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے 30نومبر 1967 کو لاہور میں رکھی تھی۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز پیپلزپارٹی کے قیام کے 3سال بعد 1970ء میں ائیر مارشل محمد اصغر خان کی جماعت “تحریک استقلال” میں شامل ہو کر کیا تھا جس میں اس وقت کے خورشید محمود قصوری، علامہ عقیل ترابی، اعتزاز احسن، شیخ رشید احمد، جاوید ہاشمی، اکبر خان بگتی، مشاہد حسین سید، مہناز رفیع اور راجہ نادر پرویز جیسے مشہور سیاسی کردار بھی شامل تھے۔ نواز شریف نے 1990 کے دوران بحیثیت سربراہ ”اسلامی جمہوری اتحاد“ (آئی جے آئی) کے جنرل الیکشن کی کمپین چلائی اور وہ سنہ 1991ء میں “اسلامی جمہوری اتحاد” ہی کے سربراہ کی حیثیت سے پہلی بار وزیراعظم بنے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 30دسمبر 1906ء میں بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں رکھی تھی۔ اس نسبت سے پاکستان میں موجود مسلم لیگ کے کئی حصے بنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون بھی مسلم لیگ کا ایک “دھڑا” ہے جیسا کہ شجاعت حسین کی قاف لیگ (اور پگاڑا لیگ وغیرہ) ایک دھڑا ہے۔ پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھنے سے قبل ذوالفقار علی بھٹو 1963 میں 35سال کی عمر میں پاکستان کے کم عمرترین وزیر خارجہ تھے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا یہ ریکارڈ 34سال کی عمر میں 27اپریل 2022ء کو وزیر خارجہ کا حلف اٹھا کر توڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء میں اپنی جماعت پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن جیتا اور بعد میں وہ پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، صدر اور وزیراعظم بنے۔ کیا بلاول بھٹو زرداری 2024 کے الیکشن میں نون لیگ کے سربراہ محمد نواز شریف کو ہرا کر اپنے نانا کی طرح “وزیر خارجہ” سے “وزیراعظم” بن سکیں گے؟
کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ عالمی سیاست میں بھی تاریخ نے خود کو کئی دفعہ دہرایا ہے۔ خاص طور پر خاندانی یا موروثی سیاست کے اعتبار سے ماضی قریب میں انڈیا کے گاندھی خاندان اور امریکہ میں ایڈمز اور بش فیملی نے یہ تاریخ کامیابی سے دہرائ جب جواہر لعل نہرو 15 اگست 1947ء کو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بنے۔ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی 1966ء اور 1980ء میں وزیراعظم بنیں۔ اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی 31 اکتوبر 1984ء کو اپنی والدہ اندرا کے قتل کے بعد وزیر اعظم بنے۔ اسی طرح جان ایڈم 1797ء میں اور ان کا بیٹا جان کواینسی ایڈم 1825ء میں امریکہ کے صدر بنے۔ جبکہ 1989ء میں جارج ایچ ڈبلیو بش امریکہ کے صدر بنے اور ان کے بیٹے جارج ڈبلیو بش 2001 سے 2009 تک دو بار امریکہ کے صدر رہے۔
بلاول بھٹو زرداری 21ستمبر 1988ء کو اس وقت پیدا ہوئے تھے، جب ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو ضیاالحق کے اعلان کردہ 1988 کے انتخابات کے لیئے الیکشن مہم چلا رہی تھیں۔ 17اگست 1988 کو بہاولپور میں ضیاالحق کا جہاز کریش ہو گیا جس میں وہ شہید ہو گئے، اور محترمہ بے نظیر بھٹو الیکشن جیت کر وزیراعظم بن گئیں۔ یوں بلاول بھٹو کو وزارت عظمی، سیاست اور عوام سے رابطہ مہم کی صلاحیت گھٹی میں ملی یے۔ بلاول بھٹو 2024 کی الیکشن مہم کا آغاز کے پی کے ایک بڑے جلسے سے خطاب کر کے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ 2024 کا الیکشن جہاں میاں محمد نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی وزارت عظمی کا مقابلہ ہے وہاں ان کی عمروں، شخصیات اور نظریات کے تفاوت کی تاریخ دہرانے کا بھی مقابلہ ہے۔ عہد جدید ہمیشہ عہد قدیم کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ نواز شریف “شخصیات” اور “ڈرائنگ روم” کی سیاست کے کھلاڑی ہیں جبکہ بلاول بھٹو کا تعلق عوام اور نظریات سے ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے پاس اس روایتی سیاست کو بدلنے کا شائد یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔