ایم بی راشد سے گفتگو

ایم بی راشد صاحب

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، لیہ

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

ایم بی راشد کا خاندانی نام محمد بخش ہے ۔ قلمی نام ایم بی راشد ہے ۔ 22 فروری 1982ء کو ماسٹر الہیٰ بخش کے گھر لیہ شہر میں پیدا ہوئے ۔ ماسٹر الہیٰ بخش کے چھ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں ۔ ایم بی راشد کا نمبر تمام بہن بھائیوں میں سے دسواں نمبر پر ہے ۔
تعلیم مڈل تک حاصل کی ہے ۔ اس کے بعد محنت مزدوری کو اپنا شعار بنالیا ۔ غریب گھر میں پیدا ہونے والا ایم بی راشد اس کی خداداد صلاحیت غریب ہونے کے باوجود نمایاں نظر آرہی ہے ۔ جس کا ثبوت دو سرائیکی شعری مجموعے ہیں ۔
جن کے نام درج ذیل ہیں ۔
“توں ہانویں” دستک پبلی کیشنز ملتان (اگست 2017)
“اٹھواں رنگ” اردو سخن پاکستان چوک اعظم لیہ (2022ء)
رکشہ چلانے سے اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہا ہے ۔ اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ پالنے میں مصروف عمل نظر آتا ہے ۔
ایسے ہی لوگ باہمت ہوتے ہیں ۔ جو اپنی منزل کو حاصل کر کے ہی دم لیتے ہیں ۔ ضلع لیہ میں ایک سرائیکی شاعر کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں ۔ کوئی بھی ادبی پروگرام ہو آپ کو ایم بی راشد سب سے پہلے نظر آئیں گے ۔ اس کی وجہ اس کے اندر کا شاعر ایک خاص مقام رکھتا ہے ۔ اس کے کلام میں سماج کے رنگ نظر آتے ہیں ۔
بے انصافیاں ، محرومیاں ، ظلم و ستم کے خلاف آواز ، برائی کو ختم کرنے کا جذبہ ، حقوقِ انسانی کے لئے کڑک دار پیغام ، دل میں اتر جانے والا مستقبل کا خواب ، ماضی اور حال کا نوحہ ، غربت کی کہانی ، بھائی چارے کا درس اور جان جاناں کا رنگ تو ایک کمال انداز میں نظر آتا ہے ۔
ایسے نوجوان حقیقی معنوں میں لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں ۔ ایم بی راشد سے ضلع بھر میں اور باہر بھی محبت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔ سادہ طبیعت سادگی میں نظر آنے والا ایم بی راشد سے چند روز پہلے ملاقات کرنے کا موقع نصیب ہوا ہے ۔ جو علمی و ادبی حوالے سے سوال و جواب ہوئے ہیں ۔ وہ نذر قارئین ہے ۔
سوال: آپ کو شعری کا شوق کیسے ہوا اور اس میدان میں کیسے وارد ہوئے ۔؟
جواب : ذکی صاحب! سب سے پہلے تو میں آپ کی محبت کا شکر گزار ہوں کہ آپ منکیرہ (بھکر) سے انٹرویو لینے کے لئے تشریف لائے ۔ آپ بغیر کسی لالچ کے اتنی دور سےتشریف لاۓ ۔ میرا حوصلہ بڑھا نے کے لئے بالکل پہلے کی طرح آپ میری ادبی حوالے سے عزت افزائی کرتے رہتے ہیں ۔ آپ فروغِ ادب کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں ۔ اس کے لئے بہت ساری دعائیں ہیں ۔ آپ کے لئے
مجھے بچپن سے ہی شوق تھا کہ پروگراموں میں گیت اور ڈوہڑے گاؤں لیکن کوئی خاص موقع نہ ملا ۔ جب سے رکشہ چلانے لگا ہوں اس دن سے شعری کی طرف توجہ زیادہ ہوئی ہے ۔ کیونکہ مختلف گلوکاروں کو سننے کا موقع ملا ۔ سب سے پہلے ڈوہڑے کہہ پھر گیت لکھنے شروع کر دیئے اور غزل ، نظم ، قطعہ ، سلسلہ چلتا گیا ۔
سوال : آپ کی کتاب کا نام ہے ۔”اٹھواں رنگ” یہ نام کیسے رکھا گیا قارئین کو آگاہ کریں ۔ ؟
جواب : جیسے قوس قزح کے سات رنگ اور چالیس رنگ مشہور ہیں ۔ ویسے تو اللّٰہ پاک کی کائنات میں بے شمار رنگ موجود ہیں ۔ لیکن زیادہ تر سات رنگ مشہور ہیں ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا ہے ۔ ایک ڈوہڑہ ہے میری کتاب میں وہ سنائے دیتا ہوں ۔ اسی ڈوہڑے سے نام رکھا گیا ہے ۔ ڈوہڑہ کچھ اس طرح سے ہے ۔

ایویں لگدے پر ہن پریاں دے جڈاں تھیندے سنگ تیڈے بوجھن دا
کائنات نے سوہنے ہر منظر گھدے اولھا منگ تیڈے بوجھن دا
اے قوس قزح چن چوڈھیں دا ہے مست ملنگ تیڈے بوجھن دا
کائنات ء راشد ست رنگ ہن ہے اٹھواں رنگ تیڈے بوجھن دا

ایم بی راشد سے گفتگو

سوال : آپ نے پہلا مشاعرہ کب اور کہاں پڑھا تھا ۔ ؟
جواب : میں نے پہلی بار ڈاکٹر خیال امروہوی مرحوم کی رہائش گاہ پر ایک ادبی نشست میں گیا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب نے میری بہت حوالہ افزائی کی ۔ یہ 2002ء کی بات ہے ۔ اس کے بعد میرا حوصلہ بڑھتا چلا گیا اور استاد سئیں شاکر کاشف صاحب کے پاس ہر مہینے کی نو تاریخ کو ادبی نشست ہوتی ہے ۔ اس میں باقاعدہ طور پر جانا شروع کر دیا ۔ بھر مشاعروں میں بھی اپنا کلام سناتا رہا ہوں ۔ ڈاکٹر خیال امروہوی مرحوم میرے محلہ دار تھے ۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا ۔ اللّٰہ پاک ڈاکٹر خیال امروہوی مرحوم کے عالم برزخ کے منازل آسان فرمائے آمین ۔
سوال : آپ کے گیت گلوکاروں نے گائے ہیں ۔ ان کے نام کیا ہیں ۔ ؟
جواب : بہت سارے گلوکاروں نے گیت گائے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی میری پہچان بنی ہے ۔ میں ان گلوکاروں کا شکر گزار ہوں ۔ جنہوں نے میرے کلام کو اپنی خوبصورت آواز کے ذریعے عوام تک پہنچایا ۔
چند گلوکاروں کے نام آپ کو بتائے دیتا ہوں ۔
مشتاق چھینہ ، باسط نعمی ، غضنفر سوکڑی ، مختار ساجن ، رشید دیوانہ اور سونا خان بلوچ شامل ہیں ۔
سوال : گیت کیا ہے اور اس کی روح کیا ہے ۔؟
جواب : گیت مختلف قسموں کے ہوتے ہیں ۔ ثقافتی ، علامتی ، معاشرتی ، رومانوی اور بھی اقسام ہیں ۔ مگر زیادہ تر رومانوی ہوتے ہیں ۔ جس میں محبوب کو تحائف وغیرہ دینے کا ذکر ہو کچھ محبوب کے نام کرنے کا ذکر ہو ۔ صنفِ ادب میں گیت ایک مشکل ترین صنف ہے ۔ اس کی روح تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا مگر عشق ہوں تو منزلیں آسان ہو جاتی ہیں ۔
سوال : آپ ایک سرائیکی شاعر ہیں ۔ کیا اردو اور پنجابی میں بھی اشعار کہتے ہیں ۔ ؟
جواب : تین چار اردو غزلیں کہی تھیں ایک ملی نغمہ بھی لکھا تھا ۔ چند اشعار پنجابی زبان میں کہہ چکا ہوں ۔ میں اشعار کہتے ہوئے زیادہ خوشی اور لطف اپنی مادری زبان سرائیکی میں محسوس کرتا ہوں ۔
سوال : آپ شاعری میں اصلاح کس سے لیتے ہیں ۔ ؟
جواب : محترم سئیں شاکر کاشف صاحب سے (لیہ)
سوال : ادب میں آپ آگے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ؟
جواب : ادب میں بہت کچھ کرنے کی خواہش تو ہے ۔ مگر کیا کروں ۔ ؟ ایک مہنگائی دوسری غربت کچھ کرنے نہیں دیتی ۔ ایسے عالم میں اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالنا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ اگر سرکاری سطح پر کتابیں شائع ہونا شروع ہو جائیں تو بہت سارے شعراء ادباء صاحب کتاب بن سکتے ہیں ۔ یا سرکاری لائبریریوں کے لیے غریب قلم کاروں سے سرکار کتابیں خرید کرنے لگ جائے تو یہ بھی حوصلہ افزائی ہوگی ۔
سوال : کیا شاعر عشق کی بنیاد پر ہوتا ہے یا نہیں ۔؟
جواب : شاعر پیدائشی طور پر ہوتا ہے ۔ عاشق بہت دیکھے ہیں مگر شاعر نہیں ۔ ڈگریوں کی بنیاد پر بھی نہیں ۔ ڈگریوں والے بھی بہت دیکھے ہیں ۔ مگر شاعر نہیں ۔ میں نے بھی عشق کیا تھا ۔ لیکن شاعر میں پہلے تھا ۔
سوال : آپ کو بہت سارے اعزازات سے نوازا گیا ہے ۔ اس پر کچھ کہنا پسند کریں گے ۔؟
جواب : بہت ساری ادبی تنظیموں نے ایوارڈز اسناد اور دیگر تحائف وغیرہ دیئے ہیں ۔ میں ان کا شکر گزار ہوں ۔ میرے ادبی کام کو سراہا گیا ہے ۔ حوصلہ افزائی پر دعا گو ہوں ۔
سوال : آپ شاعر نہیں ہوتے تو کیا ہوتے ۔؟
جواب : ہاں میں صحافی ضرور ہوتا صحافت کے ذریعے غریب لوگوں کی آواز بنتا ۔
سوال : آپ کے حلقہ احباب میں کون کون ہیں ۔ ؟
جواب : ماشاءاللہ میرے دوستوں کی بڑی طویل فہرست ہے ۔ نہایت ہی اچھے دوست ہیں ۔
چند کے نام بتائیے دیتا ہوں ۔
احمد اعجاز ، ڈاکٹر مزمل حسین ، خادم حسین کھوکھر ، صابر جاذب اور امداد حسین لیکھی فقیر ۔
سوال : آپ آخر میں نوجوان لکھاریوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ۔ ؟
جواب : تعلیم تو ہر موڑ پر ساتھ دیتی ہے ۔ مگر اندر کے شاعر و ادیب کو پالش کرنے کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے ۔ اس سے اشعار و تحریر میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔ ہاں محبت کا ثبوت اچھا اور بااخلاق ہونا بے حد ضروری ہے ۔ جس کا صلہ دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا ۔ میرا یہی پیغام سب کے لیے ہے ۔

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بساط اور فرہاد

پیر جنوری 30 , 2023
مجھے لگتا ہے کہ مجلہ ”بساط“ Bisaat کے ساتھ وادیئ نیلم کے فرہاد کا نام ایسے جُڑ جائے گا جس طرح لوک داستان شیریں فرہاد میں
بساط اور فرہاد

مزید دلچسپ تحریریں