شاعر سپاہی، محمد عنایت حیدری

Anayat Haidri

تحریر:خضر حیات خان

بقول شخصے کیمبل پوراٹک کی سرزمین میں شاعری کے جراثیم پائے جاتے ہیں مگر بندہ پولیس جیسے خشک محکمے میں ہو  جہاں زبان کی سختی بھی محکمانہ مجبوری کے زمرے میں آتی ہو  وہاں کسی کا باذوق ہونا اور شعر و ادب سے وابستگی  بڑی انہونی بات لگتی ہے  مٹھیال گاؤں کے  محمد عنایت حیدری صاحب کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔

ہمارے کالج دور میں جب ضلع کے ایس پی جناب چوہدری محمد اکرم تعینات ہوئے جو  سابق صدر پاکستان فضل الہی چوہدری کے  داماد تھے، شعر و ادب سے بلا کا شغف رکھتے تھے  کالج میں ایک عجیب سا واقع ہوا تھا جس کی تفصیل  یاد نہیں کسی امیر زادے کالجیٹ نے اپنے اغوا کا ڈھونگ  رچایا تھا تو ایس پی صاحب کالج آئے اور تقریر کی تو لگا جیسے ادیب شاعر پروفیسر ہو ان ایس پی صاحب کو حیدری صاحب کے بارے میں پتہ چلا  جو اس وقت وہاں سب انسپکٹر تھے   انہیں دفتر  بلایا گپ شپ لگائی اور شاعر سپاہی کا خطاب دیا۔ کسی مقامی اخبار نے سرخی بھی لگائی تھی۔    

مزے کی بات ہے  حیدری صاحب نے  اپنے شاعر ہونے کا  کبھی اقرار نہیں کیا تھا  مگر انکے شاعر دوست اور ہر سال کی ڈائریوں میں لکھے شعر  جن کے ساتھ نامعلوم شاعر لکھا ہوتا تھا اور انکے شاعر دوست گواہی دیتے تھے۔ ایسے کئی شعر میں یہاں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر کسی اور کے ہوں تو بتایا جائے مگر کوئی دعویدار سامنے نہیں آیا۔

جیسے اپنے جواں سال بھانجے صفدر علی خان مرحوم کے پورٹریٹ پر (چونکہ بہت اعلی خطاط تھے انکی لکھائی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی) لکھا  شعر۔ 

اتنی ویراں تو نہ تھی اپنی گزرگاہ حیات

کون اس راہ سے گزرا ہے  کہ سناٹا ہے

یا

کون ساحل پہ دعا مانگ رہا ہے یا رب

طوفان بچ کے میری کشتی سے نکل جاتے ہیں

روشنی کی بھیک مانگوں غیر سے

اتنا بھی ویراں میرا گھر نہیں

بر محل شعر کہنے میں ان کا جواب نہیں تھا  کالج میں  ان کے ایک عزیز کسی مسئلے کا شکار ہو گئے  تو انہیں کالج میں سفارش کرنے کیلئے کہا  حیدری صاحب نے اسے ڈاکٹر سعد اللہ کلیم   صاحب کے نام رقعہ لکھ کر دیا۔ اور اس پر صرف ایک شعر لکھا اور کہا میرا سلام اور یہ رقعہ دے دینا۔

افلاس نے بچوں کو سنجیدگی دے دی ہے

سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے

کلیم صاحب  رقعہ پڑھ کر بہت ہنسے اور ان کے عزیز کو کہا کہ حیدری صاحب کو میرا سلام دینا اور آئندہ کالج میں کوئی شرارت نہ کرنا۔

گولڑہ شریف کے پیر نصیرالدین نصیرؒ  جو خود  صاحب دیوان شاعر تھے وہ حیدری صاحب کے بہت اچھے دوست تھے  جب بھی جاتے انکی محفل میں تو پیر صاحب سب سے پہلے شعر سنتے “حیدری صاحب! آج وت کے سنا سو۔ “

ایک دن حیدری صاحب نے کہا۔ “ہلا جی پیر صاحب آج فر سنو”

ڈھونڈنے والوں کو  دقت نہیں ہوتی

وہ میرا گھر ہے جہاں روشنی نہیں ہوتی

پیر صاحب تڑپ گئے  اور بولے کہ یہ شعر کس کا ہے تو حیدری صاحب نے بتایا کہ جناب یہ شعر کلیم نوشہروی کا ہے جو کہ اک بزرگ شاعر ہیں  اور نوشہرہ میں تمباکو کا کھوکھا ہے انکا۔  پیر صاحب نے سب حاضرین سے معذرت کی کہ میں اور حیدری صاحب نوشہرہ جارہے   ہیں

Khizar Hayat

خضر حیات خان

مدیرہ | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

خواص قصیدہ بردہ شریف -2

بدھ اپریل 21 , 2021
قصیدہ بردہ شریف کے کچھ اشعار کے خواص
خواص قصیدہ بردہ شریف-1

مزید دلچسپ تحریریں