تسنیم تصدق صاحبہ سے گفتگو

تسنیم تصدق صاحبہ ، راولپنڈی

معروف ادبی شخصیت سے مصاحبہ ، راولپنڈی

مصاحبہ نگار : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

تسنیم تصدق صاحبہ کا آبائی شہر لاہور ہے ۔ سنت نگر لاہور میں 1958ء کو محمد اکرام قادری کے گھر میں آنکھ کھولی جامع ہائی اسکول سرگودھا سے میٹرک پاس کیا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے کیا پھر بی اے کیا اردو لٹریچر میں ایم اے کرنا چاہتی تھیں مگر اللّٰہ پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ان کے میاں تصدق حسین اللّٰہ میاں کو پیارے ہو گئے ۔ آگے تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ۔ تسنیم تصدق کو بچپن میں کہانیاں لکھنے کا شوق پیدا ہوا پھر کچھ عرصہ بعد اشعار کہنے شروع کر دیئے تسنیم تصدق نے بچپن سے لے کر آج تک محرومیاں ناانصافیاں کو برداشت کیا ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والی کو دو عظیم ہستیاں ملی جن کی محبت و ہمدردی سے تسنیم تصدق کو کمتری کا احساس نہیں ہونے دیا ۔ ایک ان کے میاں تصدق حسین اور دوسری ساس جس کی وجہ سے ٹوٹ کر بکھرنے سے بچ گئی ۔ اپنی منزل کی طرف آج بھی رواں دواں ہیں ۔ تسنیم تصدق چند سال قبل لاہور کو خیر آباد کہہ کر راولپنڈی آگئی ہیں ۔
کتاب کا نام “بھیگی پلکیں ” مصنفہ تسنیم تصدق صفحہ نمبر گیارہ پر ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ لکھتی ہیں تسنیم تصدق اپنے نام کی خوشبو مہکائے “بھیگی پلکیں ” کے ساتھ دنیائے ادب میں داخل ہورہی ہیں ۔ دور خزاں نے انہیں در بدر کر دیا تو سوچا کہ کہیں یہ جستجو بے اثر نہ جائے ۔ لیکن آپ تو آگے بڑھنا جانتی ہیں ۔ کوئی کوہ گراں ان کو کہاں روک سکتا ہے ۔ وہ خود کو تلاش کرتے آگے بڑھ رہی ہیں ۔ کڑی دھوپ سا سفر تو کوئی سونپ گیا اور دھوپ میں خوشیوں کے سرخ گلاب زرد ہونے لگے ۔

تسنیم تصدق صاحبہ سے گفتگو


تسنیم تصدق سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ چند روز قبل جو ملاقات ہوئی ہے ۔ اس میں علمی و ادبی حوالے سے سوالوں جوابات ہوئے ہیں ۔ وہ نذر قارئین ہیں ۔
سوال : تسنیم کیا ہے ۔؟
جواب : تسنیم ایک جنت کی نہر کا نام ہے مگر میں خاکسار کچھ بھی نہیں
سوال : تصدق بھی آپ کے نام کا حصہ ہے ۔ یہ آپ کا تخلص ہے ۔؟
جواب :جی جی تسنیم تصدق میرا ادبی نام ہے تخلص میرا تسنیم ہے
سوال : تصدق کا کیا مطلب ہے ۔ ؟
جواب : تصدق کے معانی ہیں صدقہ قربان ہونا اور تصدق حسین میرے میاں کا نام ہے ۔ اس لئے میں نے اپنے نام کے ساتھ رکھا
سوال : آپ اشعار کہنے کی طرف کیسے مائل ہوئیں ۔؟
جواب : میں اشعار کہنے کی طرف کیسے آئی نہیں شعر کہنا میرے لہو میں شامل ہے
سوال : اشعار کہتے وقت آپ کی کیا کیفیت ہوتی ہے ۔ ؟
جواب : اشعار کہتے وقت مجھے کیفیت کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ مجھے کسی کیفیت میں اترنا پڑتا ہے ۔ یہ ایسا ہے جب جب میرا رب مجھے لفظ عطا کرتا ہے میں لکھ لیتی ہوں
سوال : آپ کے نزدیک ادب انسان کو کیا دیتا ہے ۔؟
جواب : سب سے پہلے ادب انسان کو با ادب بناتا ہے ۔ پھر انسانیت سے متعارف کرواتا ہے ۔ محسوسات کو جنم دیتا ہے ۔ خیالات کو فروغ دیتا ہے ۔ احساسات کی پہچان کر واتا ہے ۔ ضمیر کو زندہ رکھتا ہے ۔ شعور کو بیدار کر کے عقل سلیم سے جوڑتا ہے اور جس شخصیت کے پاس ادب نہیں وہ کھبی بھی بامراد نہیں ہوسکتا میرے خیال میں آخری سانس تک ادب سیکھتے رہنا چاہیے ۔
سوال : کیا آپ کو شاعری وارثت میں ملی ہے ۔ ؟
جواب : جی ہاں ! میں بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں ۔ شاعری مجھے وارثت میں ملی ہے ۔ میرے پردادا شاعر دادا شاعر پھپھو شاعرہ تایا ابو شاعر حزیں قادری جن کے بیشمار پنجابی گانے مشہور ہیں ۔ جن کو دنیا جانتی ہے ۔ میں ان کا نام اپنے نام کے ساتھ لگا سکتی تھی مگر میں اپنے میاں کا نام لگایا اور اپنا اک الگ نام پیدا کیا الحمدللہ میرے تایا ابو ۔ حزیں قادری بہت بڑے اور عظیم شاعر تھے ۔ میری پھوپھی کے بیٹے بھی شاعر تھے ۔
سوال : آپ کالم اور کہانی کار بھی ہیں ۔ ان کی روح کیا کیا ہے ۔ تھوڑی روشنی ڈالیں ۔ ؟
جواب : کالم نگاری ایک موضوع کو لے کر چلنا پڑتا ہے ۔ پہلے تمحید باندھنی پڑتی ہے اور لفظ لفظ پر تفصیلی بحث و مباحثے کی روشنی ڈالتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے کرتے معاشرے کی خامیاں اور اچھائیاں لے کر اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں اور کہانی ایک الگ صنف ہے ۔ اس میں بے شمار راستے ہوتے ہیں کردار سازی کا دھیان رکھنا ہوتا ہے سارے کرداروں کے ساتھ ساتھ کر ایک دل چسپی کو سامنے رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے ۔ قاری کہانی ادھوری نہ چھوڑ کر جائے پوری پڑھنے تجسس پارے اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے دونوں بہت مختلف ہیں ۔
سوال : کیا مرد کے مقابلے میں ادب میں نام اور مقام بنانے میں عورت کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے ۔؟
جواب : جی ہاں ! مرد کے مقابلے میں ادبی دنیا میں اپنا مقام اور جگہ بنانے میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔ کچھ عورتیں بہت خوار ہوتی ہیں اور کچھ عورتیں ثابت قدم رہتی ہیں ۔ تو ان کو بہت وقت لگ جاتا ہے ۔ اپنا مقام اور جگہ بنانے میں کچھ مرد ایک اچھی شاعرہ کو آگے نہیں آنے دیتے یہ کہہ کر ابھی آپ کو سیکھنا چاہیے ابھی آپ کو کچھ نہیں آتا ۔
سوال : آپ کی تصانیف ۔ ؟
جواب : جی ہاں ! میری تصانیف
پہلی کتاب بھیگی پلکیں (2015ء)
دوسری کتاب یہی ہے اوراق زندگی (2016)
تیسری کتاب دوپٹہ (2017ء)
چوتھی کتاب دکھتے حرف (2019ء)
پانچویں کتاب سفنا ویاہ دا (2022ء)
سوال : حلقہ تصنیف ادب کے بانی بابا غضنفر علی ندیم مرحوم کے بارے میں کچھ کہنا پسند کریں گیں ۔ ؟
جواب : بابا غضنفر علی ندیم کے بارے میں میں نا چیز کیا کہہ سکتی ہوں ۔ وہ بہت عظیم انسان تھے ۔ جن کی شخصیت کو لفظوں میں اتارنا میرے لئے بہت مشکل اور ناممکن بات ہے ۔ ان کے بارے کون سی بات کی جائے اور کون سی نہ کی جائے ان ہر بات کمال کی بات ہوا کرتی تھی ۔ درویش سا آدمی فقیری میں ڈوبا ہوا نظر آتے تھے ۔ عشق کی حد تک ادب سے لگاؤ رکھتے تھے ۔ لفظوں میں جیتے اور لفظوں سے مر جاتے تھے ۔ ایک پان کھا کر گزارا کرتے تھے ۔ کسی سے کچھ نہیں کہتے تھے یعنی اپنا حال بیان نہیں کرتے تھے اور بہت عظیم ہستی کے مالک تھے ۔
سوال : آپ کے ادبی حوالے سے آپ کے میاں تصدق حسین مرحوم کا کیسا رویہ رکھتے تھے ۔؟
جواب : میرے میاں کی اللّٰہ پاک عالم برزخ کے منازل آسان فرمائے آمین
ادب کے حوالے سے میری بہت حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔ وہ میری لکھی ہوئی تحریر کو نیٹ کیا کرتے تھے اور جس جس اخبار میں نام ہوتا خرید کر بچوں کو دکھایا کرتے تھے ۔
بہت خوش ہوتے تھے ۔ املا میں غلطی کرتی تو بہت ڈانٹتے تھے ۔
بہت معاون ثابت ہوتے تھے ۔
سوال : آپ کے اعزازات ۔ ؟
جواب : عزازات کے جواب میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گی کہ اس حوالے سے مجھ پر قدرت کا خصوصی انعام رہا
دو گولڈ میڈل متعدد ایوارڈز سرٹیفکیٹس اور پرانی تقریباً ہر نئی تنظیم نے نوازا حوصلہ افزائی کی۔ اس حوالے سے خوش نصیب ہوں مجھے میری زندگی میں خوب پذیرائی ملی ہے ۔
سوال : کیا آپ کے اشعار میں لاہور اور راولپنڈی کی مقامیت پائی جاتی ہے ۔ قارئین کو آگاہ کریں ۔؟
جواب : لاہور اور پنڈی کے موازنے کی اگر بات کی جائے تو بس ایک جملہ کافی ہو گا کہ۔۔۔۔لاہور ، لاہور ہے۔۔۔پنڈی کا اپنا ادبی مقام ہے مگر ادبی لحاظ سے لاہور کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں۔۔۔
سوال : جڑواں شہروں یعنی پنڈی اور اسلام آباد کی ادبی فضا میں آپ نے کیا ادبی فرق محسوس کیا ہے ۔؟
جواب : پنڈی اسلام آباد کی ادبی فضا لاہور کی ادبی فضا سے یکسر مختلف ہے ۔ یہاں صرف اردو ہی مشاعروں میں قبول کی جاتی ہے مگر لاہور میں پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں کا بھی بڑا ماحول تھا ۔ پنڈی میں آج کل پوٹھوہاری کو رواج دینے کی کوششیں جاری ہیں ۔نئے لکھنے والوں کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی لاہور میں زیادہ تھی ۔جڑواں شہروں کی ادبی فضا اتنی حوصلہ افزا نہیں۔
سوال : کیا ان دونوں شہروں کی ادبی فضا لاہور کے جیسی ہو سکتی ہے ۔ ؟
جی۔۔۔کبھی نہیں
یہ گملے میں اگا ادبی شہر ہے
سوال : پنڈی کے ادبی ماحول نے آپ کو کیا دیا ۔؟
جواب : جی ہاں! ذکی صاحب
پنڈی کے ادبی ماحول میں میرا فنی شعور پختگی کے مقام پر ہے لہٰذا سیکھنے کا عمل لاہور میں رہا
سوال : کیا آپ قارئین کے لئے غزل عطا کرنا پسند کریں گی ۔ ؟
جواب : جی ہاں!
غزل
زندگی سے مجھے بے خبر کر گیا
اک نظر دیکھنا وہ اثر کر گیا

پھول کھلتے نہیں فصل گل میں یہاں
ایک دور خزاں در بدر کر گیا

اک چلن چاند کی چاندنی میں تھا جو
کتنے ویران شام و سحر کر گیا

میں جسے پوجتی تھی صنم کی طرح
جستجو میری سب بے اثر کر گیا

خوف آنے لگا زندگی سے مجھے
بے صدا میرا دل ایک ڈر کر گیا

سوال : آپ خواتین لکھاری کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گی ۔؟
جواب : جی ہاں ضرور
خواتین کے لیے مشرقیت اسلامیت اور پاکستانیت کو بہت لازمی سمجھتی ہوں ۔ مغربیت آج کی عورت کے ذہن پر بری طرح سوار نظر آتی ہے جسے سختی سے جھٹکنے کی ضرورت ہے

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

میرا ماہی چھیل چھبیلا

منگل جون 6 , 2023
پاک فوج یا ادارہ عسکریہ کو ملک پاکستان کا سب سے منظم، ترقی یافتہ اور طاقتور ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے جس کے تین بڑے باوردی حصے
میرا ماہی چھیل چھبیلا

مزید دلچسپ تحریریں