کیمبلپور سے اٹک تک – 8

تحریر:سیدزادہ سخاوت بخاری

نواحی دیھات اور آبادیوں کے ذکر کے بغیر ، پرانے کیمبل پور کی تاریخ ، ادھوری ، لولی ، لنگڑی ، پھیکی اور بے رنگ ہوگی ۔ اس شھر کی اسٹیج پہ سجنے والے ، زندگی کے ہر ڈرامے میں ، ان دیہات کے لوگوں نے اہم کردار ادا کئے ۔ پرانا اور ابتدائی شھر تو ایک ماسٹر پلان کے تحت وجود میں آیا لیکن دائیں بائیں کے محلے اور نئی آبادیاں خود رو پودوں کی طرح ، ایسا منظر پیش کرتی تھیں ، جسطرح کسی کسان نے ، ” چھٹا ” مارکر گندم بوئی ہو ، دو گھر یہاں تو چار وھاں ، بیچ میں خالی میدان ، پگڈنڈیاں ، کچےراستے اور گزرگاھیں ۔ اس دلکش اور خوبصورت پس منظر میں ، سویرا ہوتے ہی ،سورج دیوتا کی اولین اور ننھی منی کرنوں کے جلو میں ، مذکورہ دیہات سے لوگوں کے قافلے کیمبل پور میں داخل ہوتے۔ اکثریت پیدل چل کر آتی ، تاہم کچھ لوگ تانگوں ، بیل گاڑیوں ، سائیکل اور جانوروں پہ سوار ہوکر ، شھری زندگی کے اس میلے کا حصہ بنتے ۔دیہات سے آنے والوں میں طلباء و طالبات ، معلمین و معلمات سرکاری و نجی ملازم ، تاجر ، وکیل ، ھنرمند ، مزدور اور کورٹ کچہری میں مقدمات کی پیروی کرنے والوں سے لیکر سائیں ، ملنگ اور فقیر تک شامل ہوتے ۔ جن دیہات میں چاھی زمینں تھیں وہاں کے لوگ تازہ سبزیاں اور دیسی پھل ، کالا چٹا کے دامن میں بسنے والے ، جلانے کی لکڑی ، پہاڑ میں سے جمع کیا ہوا ، جانوروں کا سوکھا گوبر ، دیسی مرغیاں اور انڈے ، بھیڑ بکریوں کا دودھ ، دیسی بکرے ، موسم گرما کی سوغاتیں ، گنگیر ، میٹھے خربوزے اور دیگر اشیاء خورد نوش لاکر فروخت کرتے اور واپسی پر آٹا ، چاول ، مرچ مصالحے ، کپڑا ، جوتے وغیرہ ، حسب ضرورت خرید کر لیجاتے ۔ ذرائع ابلاغ نہ ہونے کے برابر تھے ، ریڈیو کم کم ، ٹیلیوژن ندارد ، ٹیلیفون کی لینڈ لائن شھر کی حد تک اور وہ بھی روساء کے پاس ، موبائل فون اور سوشل میڈیا ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے لھذا خبریں ، سینہ بہ سینہ گشت کرتی تھیں ، باھر سے آنے والے افراد اور قافلوں کو روک کر پوچھا جاتا تھا ، کہاں سے آئے ہو ، فلاں گاوں سے ، اچھا ، کرم دین بیمار تھا ، اس کا کیا حال ہے ، جی ، اب بہتر ہے ، فلاں پیر صاحب سے دم کروایا، اب روبصحت ہے ۔ فلاں شخص شھر نہیں آرھا ، خیریت تو ہے ، جی اس کا بھائی فوج سے چھٹی آیا ہوا ہے ، اس کی شادی میں لگے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح دیہات سے آنے والے یہ افراد ، شھر سے نئی معلومات اور سنی سنائی خبریں ساتھ لے جاتے تھے ۔ جسطرح آج ، ٹیلیوژن پہ ٹاک شوز ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ پیدل چلنے والے ، راستے بھر مختلف موضوعات پہ بحث کرتے اور حصول معلومات کے ساتھ ساتھ سفر بھی بہ آسانی طے ہوجاتا۔ اطراف کی آبادیوں سے مالکان اور خان خوانین ، عام جنتا کے برعکس ، گھوڑوں پہ سوار ہوکر ، شھر تشریف لاتے ، صحتمند جسم ، سفید شلوار قمیص ، سفید شملے دار پگڑی ، پاوں میں قیمتی کھیڑی ، پوری شان و شوکت سے نمودار ہوتے ، راہ چلتوں سے سلام دعاء کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ۔ منزل پہ پہنچ کر گھوڑا سائے میں باندھ دیا , کام نمٹایا اور خان صاحب کی سواری واپس چل دی . موٹر کار خال خال نظر آتی تھی ، روساء نے اپنے استعمال کے لئے ذاتی تانگے رکھے ہوئے تھے جنھیں بوقت ضرورت جوت کر استعمال میں لایا جاتا تھا ۔ مثلا ، ہماری آبادی میں ایک تحصیلدار صاحب تھے ، سردار سلطان محمود خان بسمل مرحوم ، انہوں نے اپنے بچوں کے اسکول آنے جانے کے لئے ، ایک خوبصورت گھوڑی تانگہ رکھا ہوا تھا ۔ ہر صبح ان کا کوچوان انہیں لیکر جاتا اور چھٹی کے بعد واپس لاتا ۔

sultan mehmood bismil
سردار سلطان محمود خان بسمل مرحوم

بات دیہات کی ہورہی تھی تو عرض ہے ، ایندھن کے حوالے سے ، وہ لکڑی اور کوئلے کے استعمال کا ذمانہ تھا ، مٹی کے تیل کا چولھا عام نہیں تھا ، گیس ابھی دریافت کے ابتدائی دور میں تھی لھذا کالا چٹا پہاڑ کی لکڑی کیمبل پور کے ایندھن کی ضروریات پوری کرتی تھی ۔ پہاڑ کے قریب آبادیوں کے لوگ جنگل سے لکڑی کاٹ کر شھر لاتے اور اس طرح شھروالوں کے چولہے جلتے ۔

(جاری ہے )

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سرپرست

اٹک ای میگزین

تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اٹک شہر میں محفلِ مشاعرہ

اتوار مئی 23 , 2021
کاروان قلم اٹک کے زیر اہتمام 23 مئی 2021 کو ایک محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعر و ادیب مدیرِ “جمالیات ” طاہر اسیر نے کی
mushaera in attock

مزید دلچسپ تحریریں